فوجی آپریشن کسی خاص طبقے نہیں دہشت گردی کے خلاف ہے: آصف

پاکسستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حکومت نے آپریشن عزم استحکام پر تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ انہوں نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ ’آپریشن کسی خاص طبقے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے خلاف ہے۔‘

پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ’عزم استحکام آپریشن‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ فوجی آپریشن کسی ’خاص طبقے‘ کے خلاف نہیں بلکہ ’دہشت گردوں‘ کے خلاف ہے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے اتوار کو قومی اسمبلی میں خطاب کے بعد انڈپینڈنٹ اردو کو دیے خصوصی انٹرویو میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں نعرے بازی کے تناظر میں کہا کہ ’اگر یہ آپریشن نا منظور ہے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ وہ دہشت گردی کے ساتھ ہیں۔‘

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے 22 جون کو نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں انسداد عسکریت پسندی کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ کی منظوری دی تھی۔

اس آپریشن کے خلاف اپوزیشن اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اتوار کو قومی اسمبلی میں احتجاج اور تقاریر بھی کی گئیں۔ جبکہ بعض پی ٹی آئی رہنماؤں نے پارلیمان کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی آپریشن پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر شروع نہ کیا جائے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی آپریشن ہو چاہے وہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو یا مکمل آپریشن ہو، وہ بعض اضلاع میں ہو یا کسی خاص تحصیل میں، اس کے لیے پارلیمان کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔‘

اس حوالے سے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عزم استحکام آپریشن کا معاملہ پراسیس ہو کر پارلیمان میں بھی آئے گا۔

تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’آج قومی اسمبلی میں اس اتحاد کو پارہ پارہ کیا گیا اور ایسے نعرے لگائے گئے جس سے پاکستان کی سالمیت متاثر ہوتی ہے۔ ان نعروں سے صوبائیت کی بو آ رہی تھی۔‘

خواجہ آصف نے اپوزیشن اراکین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اسمبلی میں فوج کے خلاف نعرے لگائے گئے۔ ملٹری آپریشن نامنظور کے نعرے لگائے گئے، صوبہ میں امن کے لیے آپریشن کر رہے ہیں۔ یہ آپریشن کسی خاص طبقہ کے خلاف نہیں دہشت گردوں کے خلاف ہو رہا ہے۔ اگر یہ آپریشن نامنظور ہے تو یہ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

وفاقی وزیر دفاع سے جب پوچھا گیا کہ عزم استحکام آپریشن ماضی کے آپریشنز سے کتنا مختلف ہوگا؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپریشن مختلف ہوگا۔ ’آپریشن پہلے بھی ہوئے جن کے اچھے اثرات سامنے آئے، دہشت گردی میں کمی آئی اور امن قائم ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’سوات سب سے بڑی مثال تھی جہاں زندگی معمول پر آ گئی۔ فوج نے بھاری جانی نقصان اٹھا کر پاکستان کو امن دیا۔ سٹریٹیجی حالات کے مطابق وقت کے ساتھ تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔‘

خواجہ آصف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’تب طالبان کو واپس لا کر انہیں ایمنسٹی دی گئی۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض نے قومی اسمبلی کے ایوان میں بریفنگ دی، اس وقت عمران خان کی حکومت تھی۔ یہ بریفنگ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دلوائی۔ اس کے بعد جتنے افراد افغانستان سے پاکستان آئے، انہیں یہ لوگ یہاں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں اور ان کے گھروں میں ٹھہرتے ہیں۔‘

وزیر دفاع نے داسو حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس واقعہ میں ملوث گاڑی 10 روز پاکستان میں رہی۔‘

’اس گاڑی نے افغانستان کا بارڈر عبور کیا اور 10 روز یہاں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کہیں پناہ گاہیں ضرور ملتی ہیں۔ بعض اوقات ایک روز میں کئی تشکیلیں پاکستان کا بارڈر پار کرتی ہیں۔ شام کے بعد خیبر پختونخوا کے کئی علاقے نو گو ایریا بن جاتے ہیں، وہاں ٹول ٹیکس طالبان وصول کر رہے ہیں۔‘

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ ’دہشت گردی کی نئی لہر میں صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں امن کی صورت حال خراب ہوئی ہے۔‘

انہوں نے عزم استحکام آپریشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جس کوشش کا اعلان ہوا ہے، اس میں فوج نے پہلے بھی امن قائم کیا تاہم سال 2017 کے بعد سولین حکومتیں امن قائم نہیں رکھ سکیں۔

وزیر دفاع نے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائل میں آپریشنز پر resentment سے متعلق سوال پر جواب دیا کہ ’محسن داوڑ اور علی وزیر بھی آپریشنز کے خلاف نہیں تھے بلکہ حق میں تھے، وہ اس کے اصول کے خلاف نہیں تھے۔ وہ طالبان کے حامی نہیں تھے لیکن آج نعرے لگانے والے طالبان کے دوست لگ رہے تھے۔‘

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے ’گڈ طالبان از ڈیڈ طالبان‘ کے بیان پر وزیر دفاع نے کہا کہ ’یہ اچھی بات ہے لیکن ان کے تمام بیانات میں تضاد نظر آئے گا۔ اگر ان کے بیانات میں تسلسل نظر آ جائے تو ان کا خیر مقدم کریں گے۔ کسی مقصد کے تحت وہ اس طرح کے بیان دیتے ہیں، پھر بانی پی ٹی آئی یا نو مئی کی لائن پر چل پڑتے ہیں۔‘

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کا نعرہ لگاتی رہی ہیں لیکن وہ نعرہ آج کل ’شہدا ہمارے ہیں‘ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ان تضادات نے سیاست کو fractured سیاست بنا دیا ہے۔

انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ’عزم استحکام آپریشن‘ کے حوالے سے کہا کہ اگر سیاست دانوں نے اس میں کوئی کردار ادا کرنا ہے تو ہم سب کو ایک پیج پر ہونا پڑے گا، اس میں عدلیہ بھی شامل ہے۔‘

وزیر دفاع نے کہا کہ ’گذشتہ روز میں نے اعظم نذیر تارڑ سے کہا کہ بینظیر بھٹو کیس کے فیصلہ میں طالبان کو چھوڑ دیا تھا جبکہ پولیس کو سزائیں سنا دی گئیں تھیں۔ انہوں نے کہا عدلیہ نے انہیں بتایا تھا کہ ہم طالبان سے دشمنی مول نہیں لے سکتے۔ جب ریاست کا ستون مصلحتوں کا شکار ہو جائے، بینظیر بھٹو کیس کی بات کر رہا ہوں، جب انہیں انصاف نہیں مل سکا تو عام آدمی کو کیسے انصاف دیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان