فلپائن کے شہر پگاڈین میں حکام نے انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر اِنچیف بکر عطیانی کو 2012 میں اغوا کرنے والے ابو سیاف گروپ کے تیسرے بڑے رکن کو گرفتار کر لیا۔
ویب سائٹ نیوز انفو کے مطابق 44 انفنٹری بٹالین کے کمانڈر لفٹینٹ کرنل ڈون ٹیمپلونویو نے بتایا: ’ناصرین بلاجدجی، جو 2012 میں اردن سے تعلق رکھنے والے صحافی بکر عطیانی سمیت کئی افراد کو اغوا کرنے میں ملوث تھے، انہیں 44 انفنٹری بٹالین اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے بعد ناگا بارانگے کے علاقے زمبوانگا سبوگے سے گرفتار کرلیا گیا۔‘
ٹیمپلونویو کا کہنا تھا کہ ’بلاجدجی 2012 میں اردنی صحافی بکر عطیانی کے اغوا میں ملوث تھے۔‘
بکر عطیانی ڈیڑھ سال بعد اپنے اغواکاروں کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔
صوبائی پولیس کے ڈائریکٹر کرنل جیری پروٹاسیو کا کہنا ہے کہ گرفتار شخص اٹلی کے ایک کیتھولک پادری رونلڈ ڈیل ٹوریچو کے اغوا میں بھی ملوث تھا۔ اس کے علاوہ ان کا گروپ 2016 میں ایک آٹھ سالہ بچے ریکسن روموک کے اغوا بھی ملوث تھا۔ یہ بچہ آٹھ ماہ تک اس گروپ کی قید میں رہا تھا۔
ٹیمپلونویو کے مطابق اغوا کار اس وقت پولیس کی حراست میں ہے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کا عمل باضابطہ طور پر جاری ہے۔
Ranking ASG member tagged for the 2012 kidnapping of journalist @atyanibaker napped today. He was arrested by the joint 44th IB and police operation in Barangay Canacan, Naga, Zamboanga Sibugay, Southern Philippines. https://t.co/F9jVBhBv5B pic.twitter.com/rsDwa8ELfc
— Baker Atyani (@atyanibaker) September 26, 2019
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بکر عطیانی کا کہنا تھا: ’آج صبح مجھ سے فلپائن کے انسداد اغوا پولیس یونٹ نے رابطہ کیا اور گرفتار ہونے والے شخص کی تصویر اور تفصیلات بھیجیں۔گرفتار ہونے والا شخص مجھے اغوا کرنے والے گروہ کا ایک ماسٹر مائنڈ تھا۔‘
بکر کے مطابق: ’جب مجھے یہ خبر ملی تو مجھے محسوس ہوا کہ انصاف ہو رہا ہے۔ مجھے اغوا کرنے والے گروہ کے چار ارکان ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔ یہ میرے لیے بدقسمت واقعہ تھا اور وہ وقت بہت مشکل تھا لیکن میں خوش ہوں کہ ایسے غلط اقدامات کرنے والے قانون کے دائرے میں لائے جا رہے ہیں اور انصاف ہوتا نظر آرہا ہے۔‘
2017 میں اپنے اغوا کے بعد پہلی بار فلپائن جانے کے دوران اپنے ایک انٹرویو میں بکر عطیانی بتا چکے ہیں کہ وہ اپنی دو سالگرہ مناتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’میں دو سالگرہ مناتا ہوں، ایک اپنے یومِ پیدائش پر اور ایک اُس روز جب میں نے اغواکاروں سے آزادی حاصل کی۔ مجھے ایک نئی زندگی ملی ہے۔ اتنا سب دیکھنے کے بعد میں کسی چیز کو بھی مسئلہ نہیں کہہ سکتا۔ اس سب کے بعد میں زندگی کے بارے میں بہت مثبت انداز میں سوچتا ہوں۔ میں صحافت کو ایک مقدس پیشہ سمجھتا ہوں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے وہ 18 مہینے کیسے گزارے تھے؟ تو ان کا کہنا تھا: ’میرے دل میں ہمیشہ سے ایک امید تھی کہ میں آزادی کے بعد لوگوں کو بتا سکوں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔میں اپنے گھر والوں سے ملوں گا اور یہ امید ہمیشہ میرے ساتھ رہی۔ میں انہیں لکڑی کی جھونپڑیاں تعمیر کرتے دیکھتا رہتا تھا تاکہ میں خود کو مصروف رکھ سکوں۔ ان 18 ماہ کے دوران میں نے اپنے اغوا کاروں سے وہ زبان بھی سیکھنے کی کوشش کی جو وہ بولتے تھے۔وہ مجھے قیدی نہیں کہتے تھے، وہ مجھے ’پرندے‘ کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔‘
ان سے سوال کیا گیا کہ آپ اسامہ بن لادن کا انٹرویو بھی کر چکے تھے جس کے بعد آپ ابو سیاف کا انٹرویو کرنے گئے، دونوں میں کیا فرق محسوس کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے بن لادن کا انٹرویو کیا تھا تو القاعدہ میڈیا کوریج کی تلاش میں تھی۔ جب کہ ابو سیاف گروپ زیادہ تر پیسہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک عسکریت پسند مافیا کی طرح کام کرتے ہیں۔وہ اس نظریے سے مکمل طور پر لاعلم نظر آئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ابوسیاف گروپ کوئی ایک متحدہ گروہ نہیں ہے۔ اس کے اندر کئی اور گروہ بھی موجود ہیں جن کے اپنے اپنے سرکردہ افراد ہیں۔یہ گروہ ابو سیاف گروپ کا نام استعمال کرنے کے لیے اسے پیسے دیتے ہیں۔‘