برطانیہ میں تیزی سے پنجے گاڑتی ہوئی ’تنہا موت‘ کی وبا

تنہائی کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران کیے گئے تجزیے کے مطابق 2020 سے 2023 کے دوران تنہا رہنے والے افراد کی تعداد آبادی کے چھ فیصد سے بڑھ کر 7.1 فیصد ہو چکی ہے۔

28 مئی 2021 کو شمال مغربی انگلینڈ میں ایک معمر خاتون واکنگ ایڈ کے ساتھ چل رہی ہیں (اے ایف پی / اولی سکارف)

بہت سے لوگ تنہائی کے عالم میں موت کے منہ جانے سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ افسانوی کردار برجٹ جونز کے الفاظ میں تنہا اور ’تین ہفتے بعد اس حالت میں ملنا کہ آدھا جسم کتوں نے کھا لیا ہو۔‘

یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں تنہائی کی حالت میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ سماجی سطح پر اس قدر تنہا ہوتے ہیں کہ کئی دن، ہفتے، مہینے حتیٰ کہ برسوں تک ان کی موت کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ مسئلہ بہت سنگین ہے جسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ یہ مسئلہ بہت سے ملکوں میں تیزی سے حقیقت بنتا جا رہا ہے۔

ایسے پریشان کن اور نمایاں نظر آنے والے واقعات ہو چکے ہیں جنہوں نے ہماری توجہ حاصل کی۔ مثال کے طور پر جوئس ونسنٹ کا معاملہ۔ 2006 میں صرف 38 سال کی جوان خاتون کو لندن میں واقع فلیٹ میں مردہ پایا گیا۔ اس واقعے نے قوم کو چونکا دیا۔

کیرول مورلے کی جذباتی اور متاثر کن فلم ’ڈریمز آف اے لائف‘ اسی واقعے سے متاثر ہو کر بنائی گئی۔ اور پھر اس کے بعد زیادہ عام، روزمرہ کے واقعات ہیں جن کی شہ سرخیاں نہیں بنتیں یا ان کے بارے میں فلمیں نہیں بنائی جاتیں لیکن یہ واقعات مساوی طور پر تکلیف دہ ہیں۔

ایسے واقعات جاپان میں کثرت سے ہوتے ہیں جہاں نام نہاد ’تنہائی میں اموات‘ کی وبا مسلسل پھیل رہی ہے۔ یہ وبا اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس کے لیے ’کودوکشی‘ کا لفظ استعمال کیا جا رہا ہے۔

پولیس کی جانب سے جاری کیے گئے نئے اعداد و شمار کے مطابق 2024 کے پہلے تین ماہ میں 22 ہزار شہری تنہائی کے عالم میں جان سے گئے۔ ان پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ توقع ہے کہ سال کے آخر تک یہ تعداد 68 ہزار تک پہنچ جائے گی۔ تنہائی میں ہونے والی اموات کی یہ تعداد جاپان کی 15 لاکھ 90 ہزار سالانہ اموات کا تقریباً چار فیصد بنتی ہے۔

یہ صورت حال جزوی طور پر آبادی کے عمر رسیدہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ تنہائی میں موت کے منہ میں جانے کے بعد، آخرکار دریافت ہونے والے افراد میں سے 80 فیصد 65 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ تھے۔

اس حقیقت کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ کہ بڑھتی ہوئی تعداد میں لوگ اپنے آخری سال تنہا گزار رہے ہیں۔ 2015 اور 2020 کے درمیان، جاپان میں تنہا رہنے والے افراد کی تعداد میں 13.3 فیصد اضافہ ہوا جو ملک کے تمام خاندانوں کا 38 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 65 سال سے زیادہ عمر کے 73 لاکھ 80 ہزار لوگ گھر میں تنہا رہتے ہیں۔

جاپان کے وزیر صحت کیزو تکیمی کا کہنا ہے کہ ’مستقبل میں تنہائی کے عالم میں موت کے امکان میں اضافہ یقینی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ہم اس مسئلے سے بلاتردد نمٹ رہے ہیں۔‘

صرف جاپان اس مشکل میں مبتلا نہیں۔ رفاہی تنظیم ایج یوکے کے مطابق برطانیہ میں 65 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 42 لاکھ افراد جو کل آبادی کا تقریباً 7.5 فیصد ہیں، اکیلے رہتے ہیں۔

شاید اس سے بھی زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ عمر رسیدہ 10 لاکھ سے زیادہ افراد کہتے ہیں کہ وہ اکیلے رہتے ہیں اور ممکن ہے کہ کسی دوست، پڑوسی یا خاندان کے فرد سے بات چیت کیے بغیر ان کا ایک ماہ سے زیادہ وقت گزر جائے۔

ایج یو کے کی ڈائریکٹر کیرولین ابراہمز کے بقول: ’بڑھتی عمر کے ساتھ تنہائی، ہم میں سے بہت سے لوگوں کی زندگی کو بے مزہ کر دیتی ہے۔ اس سے زندگی کے دباؤ اور مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے اور ہم خود کو کٹا ہوا اور پیچھے رہ جانے والا محسوس کرتے ہیں۔‘

’طویل عرصے سے جاری تنہائی‘ ایسی اصطلاح ہے جو ان لوگوں کے معاملے میں استعمال کی جاتی ہے جو دفتر برائے قومی اعدادوشمار (او این ایس) کے سروے میں’اکثر اور ہمیشہ‘ کے الفاظ کے ساتھ جواب دیتے۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ’آپ خود کو کتنی بار تنہا محسوس کرتے ہیں؟‘ کووڈ کی وبا کے بعد تنہا رہنے والے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے۔

تنہائی کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران کیے گئے تجزیے کے مطابق 2020 سے 2023 کے دوران تنہا رہنے والے افراد کی تعداد آبادی کے چھ فیصد سے بڑھ کر 7.1 فیصد ہو چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ برطانیہ میں کووڈ کی پابندیوں کے پہلے سال کے مقابلے میں مزید پانچ لاکھ لوگ خود کو مسلسل تنہا محسوس کر رہے ہیں۔

تنہائی نہ صرف ہماری ذہنی صحت کے لیے بری ہے بلکہ یہ خراب جسمانی صحت سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ تنہائی کے خاتمے کی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تنہائی بلند فشار خون اور شدید ذہنی دباؤ کا سبب بنتی ہے۔ اس سے نیند میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور یہاں تک کہ قبل از موت کا خطرہ بھی 26 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔

تنہا ہونے سے ’تنہائی میں موت‘ کا امکان بڑھ سکتا ہے۔

برطانیہ اور ویلز میں ہونے والی اموات پر 2023 میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی تنہائی اور اکیلے رہنے والے عمر رسیدہ افراد میں اضافے سے برطانیہ میں تکلیف دہ ’کودوکشی‘ بڑھی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈاکٹر لوسِنڈا ہیام اور پیتھالوجسٹ ڈاکٹر تھیوڈور ایسٹرن سرلوئی کی سربراہی میں ٹیم نے او این ایس کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے تشویشناک رجحان کی نشاندہی کی۔ 1979 کے بعد سے ایسی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جن میں لاشیں خراب ہو گئیں۔ یعنی ان اموات کا تقریباً ایک ہفتہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک پتہ نہیں چل سکا تھا۔

برطانیہ میں خراب ہو جانے والی لاشوں کے ریکارڈ کا کوئی باضابطہ طریقہ موجود نہیں اس لیے تحقیق کے دوران وجوہات کے حوالے سے ’نامعلوم‘ یا ’غیر واضح‘ کے طور پر ریکارڈ کی جانے والی اموات سے منسلک الگورتھم تیار کیا گیا جو عام طور پر اس صورت میں استعمال ہوتا ہے جس میں موت کی وجہ کا تعین نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ لاش گل سڑ چکی تھی۔

ڈاکٹر ایسٹرن سرلوئی کا کہنا ہے کہ تنہائی میں ہونے والی اموات کے وہ کیسز جن کے بارے میں ہم سنتے ہیں ان کی تعداد بہت کم ہے حالاں کہ یہ مسئلہ کہیں بڑا ہے۔ ’بہت سے لوگ اکیلے اور معاشرتی طور پر الگ تھلگ رہتے ہیں۔ لیکن اگر وہ بیمار ہو کر مرنے سے پہلے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں یا موت کے بعد ایک ہفتے کے اندر ان کی لاش مل جاتی ہے۔ (جب موت کی وجہ پتہ چلنا باقی ہو۔) تو ایسے کیس ہماری تحقیق کا حصہ نہیں ہوں گے۔‘

ڈاکٹر سرلوئی کے تحقیق میں زیادہ محتاط اندازوں میں بھی گذشہ سال 50 سال کی عمر میں تنہائی میں موت کے منہ میں جانے والے ایسے لوگوں کی تعداد میں ’نمایاں‘ اضافہ ہوا ہے جن کی لاش کا ایک ہفتے یا اس سے زیادہ عرصے تک پتہ نہیں چل سکا۔ یہ تعداد 1970 کی دہائی کے آخر میں ہر ایک لاکھ افراد میں صفر اعشاریہ ایک سے صفر اعشاریہ دو سے 2022 میں ہر ایک لاکھ افراد میں چار افراد تک بڑھی۔

سب سے زیادہ تیزی سے اضافہ 1995 سے 2005 میں ہوا لیکن اس کے بعد سے اس شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر ایسٹرن سرلوئی کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق گذشتہ سال ’تنہائی میں ہونے والی اموات‘ کی سرکاری تعداد تقریباً آٹھ سے نو ہزار کے درمیان تھی۔

یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو 60 سال زیادہ عمر کی خواتین کے مقابلے میں 60 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو بہت زیادہ شرح سے متاثر کرتا ہے۔ ایک لاکھ مردوں میں سے سات مرد اس مسئلے کا شکار ہوتے ہیں جب کہ ایک لاکھ خواتین میں یہ تعداد 2.5 ہے۔

مضافاتی علاقوں کے مقابلے میں شہروں میں رہنے والے افراد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق وسطی لندن میں تنہائی میں ہونے والی اموات کی تعداد ہرٹ فورڈ شائر کے مقابلے میں دگنی ہے۔

اس طرح کی اموات میں اضافہ کیوں ہوا؟ اس بارے میں بہت سے نظریات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ کووڈ کے وبائی کے دوران ہونے والا لاک ڈاؤن ہے جس نے لوگوں کو لمبے عرصے تک الگ تھلگ رکھا۔ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگیاں اب زیادہ ڈیجیٹل ہو چکی ہیں لہذا ہمارا لوگوں کے ساتھ وہ رابطہ کم ہو گیا جسے ہم زیادہ اہمیت نہیں دیا کرتے تھے۔

خاندان کی ساخت میں تبدیلی، رسمی اور غیر رسمی سماجی روابط کا ختم ہونا اور طلاق کی شرح میں اضافہ بھی تنہائی میں ہونے والی اموات کے عوامل ہیں۔ ممکن ہے کہ اس ضمن میں بہت سارے عوام موجود ہوں۔

یہ مسئلہ بدتر ہونے کی توقع ہے۔ جیسے جیسے ہماری آبادی بڑھتی جا رہی ہے، ہمارے بارے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلی دو دہائیوں میں ہماری آبادی جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ملکوں جیسی ہو جائے گی جہاں 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کی تعداد آبادی کے نصف سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر ایسٹرن سرلوئی کا کہنا ہے کہ ’اعدادوشمار سے ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

’وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جاپان کی طرح ہماری آبادی اور شرح پیدائش میں تبدیلی کی صورت میں، اپنے ڈیٹا اور رجحانات کی بنیاد پر میں پیشگوئی کرتا ہوں کہ آنے والی دہائیوں میں ہمیں شائد کودوکشی کے زیادہ واقعات کی توقع ہو گی۔‘

جاپان جیسے مستقبل کا سامنا کرنے کے باوجود ، برطانیہ نے ابھی تک اسے اسی انداز میں تسلیم نہیں کیا۔ اس مسئلے کے بارے میں آگاہی کی بدولت ہاؤسنگ کے ادارے حکام کی طرف سے سماجی گشت اور مخصوص اقدامات کا آغاز ہوا ہے۔

برطانوی اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، مثال کے طور پر ٹوکیو کے مضافات میں توکی ودیرہ کے علاقے میں مکینوں کی تنظیم نے اپنے پڑوسیوں کے بارے میں فکر مند لوگوں کے لیے ہاٹ لائن قائم کی ہے تاکہ وہ حکام کو صورت حال سے آگاہ کر سکیں۔ اپارٹمنٹ کمپلیکس نے 10 سال پہلے ’صفر تنہا موت‘ مہم بھی شروع کی تھی۔

ماہرین کا استدلال ہے کہ ہمیں بھی تنہائی کے اس بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایج یوکے قومی سطح پر بڑے پیمانے پر تبدیلی کا مطالبہ کر رہا ہے۔

ابراہمز کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو تنہائی کے خاتمے اور اس سے نمٹنے کو پالیسی میں ترجیح بنانے کی ضرورت ہے، جس میں عمر رسیدہ افراد کو تنہائی سے بچانے یا پہلے سے ہی اس کا سامنا کرنے والوں کو دوبارہ روابط قائم کرنے میں مدد دینے کی خاطر درکار فنڈ فراہم کیا جائے۔‘

’ایج یو کے میں ہم اگلی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تنہائی کے معاملے میں نئی قومی حکمت عملی کے ساتھ قدم بڑھائے جس پر عمل کے لیے وزیر موجود ہو اس حکمت عملی کو تمام سرکاری شعبوں کے لوگوں پر مشتمل ٹیم کی معاونت حاصل ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیادہ مقامی اور ذاتی سطح پر ایج یو کے نے اس نکتے کو نمایاں کیا ہے کہ ہم سب ’اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔‘ پرانے دوستوں، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ بس یا دکان میں کسی بوڑھے شخص کے ساتھ دوستانہ بات چیت کر سکتے ہیں۔ کسی پرانے پڑوسی کو مدد کی پیشکش کر سکتے ہیں یا رشتہ داروں کو باقاعدگی سے فون کر سکتے ہیں۔

’جو ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کے اندازے سے کہیں زیادہ اچھا کام کر سکتا ہے۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اگر آپ کو کسی کی سلامتی کے بارے میں فوری نوعیت کا خدشہ ہے، تو آپ کو پولیس سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اگرچہ زیادہ تر خوفناک شہ سرخیاں ان لوگوں کے بارے میں ہوتی ہیں جن کی لاشیں پریشان کن حد تک لمبے عرصے تک دریافت نہیں ہو پاتیں۔ اس کی مثال جوائس ونسنٹ جیسے لوگ ہیں۔ تنہائی میں ہونے والی اموات کا حقیقی المیہ تنہا گزاری جانے والی زندگیوں کا نتیجہ ہے۔

ڈاکٹر ایسٹرن سرلوئی کے مطابق: ’میں موت سے ہمکنار لوگوں کی وکالت کرنا اور ان کے وقار کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں کا ایسی حالت میں مر جانا کہ کسی پتہ نہ چلے، بذات خود خوفناک اور افسوسناک بات ہے۔

’کوئی تنہائی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا لیکن اگر لوگوں کو موت کے وقت بھلا دیا جائے تو اس مطلب یہ ہو گا شائد ان لوگوں کو زندگی میں بھی بھلا دیا گیا تھا یا نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑے مسئلے کی سنگینی ہے جو معاشرے کو متاثر کر رہی ہے یعنی ہر عمر کے لوگوں کی سماجی تنہائی بڑھ رہی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت