کراچی میں محکمہ صحت کے مطابق وائرل انفیکشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور ہسپتالوں میں آنے والے بیشتر مریض نزلہ، کھانسی اور بخار میں مبتلا ہیں۔
اسی حوالے سے 18 جنوری کو ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ نے تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو ہدایت جاری کیں کہ صحت کے مراکز میں ضروری ادویات اور طبی اشیا کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران کو کہا گیا ہے کہ وہ کووڈ 19 اور ایچ ون این ون کی علامات سے متعلق بروقت طبی امداد کی اہمیت پر عوام کو معلومات فراہم کریں، اقدامات اور مسائل کی ہفتہ وار رپورٹ جمع کروائیں اور عوامی صحت کے تحفظ کے لیے ہدایات پر سختی سے عمل کریں۔
اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاؤ ہسپتال میں ماہر متعدی امراض پروفیسر سعید خان نے بتایا کہ ’شہر میں بڑی تعداد میں عوام نزلہ، کھانسی اور بخار میں مبتلا ہورہے ہیں پھیپھڑوں کے امراض، انفلوائنزا اور سانس کی نالی میں انفیکشن کے ساتھ مریض ہسپتال آرہے ہیں۔
’ٹیسٹ کروانے پر 25 سے 30 فی صد مریضوں میں کرونا مثبت آ رہا ہے جبکہ 10 سے 12 فی صد مریضوں میں انفلوئنزا ایچ ون این ون، پانچ سے 10 فی صد بچوں میں سانس کی نالی کے انفیکشن کی تصدیق ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کرونا، انفلوئنزا ایچ ون این ون اور سردیوں کی دیگر وائرل انفیکشنز کی علامات ملتی جلتی ہیں، اکثر مریض ٹیسٹ نہیں کرواتے جس کے باعث بیماریوں کی تصدیق نہیں ہوتی۔‘
پروفیسر سعید خان کے بقول: ’سردیوں میں یہ بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں، ہوا کے نکاس کا ناقص نظام وائرسز کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ بنتا ہے۔ شہری احتیاطی تدابیر لازمی اپنائیں، ماسک پہنیں، خود کو ڈھانپ کر رکھیں اور ہر سال انفلوئنزا کی ویکسین لازمی لگوائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کسی سرکاری ہسپتال میں فی الوقت کرونا کے ٹیسٹ کی سہولیات نہیں اور مہنگا ٹیسٹ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ ٹیسٹ نہیں کروا رہے۔‘
جناح ہسپتال ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ کے انچارج ڈاکٹر عرفان صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’وائرل انفیکشن کے یومیہ 200 مریض جناح ہسپتال میں آ رہے ہیں جن میں زیادہ تعداد پانچ سال سے کم عمر والے بچوں کی ہے کیونکہ ان کی قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔
’تاہم 30 سے 40 برس کی عمر کا گروپ بھی وائرل انفیکشن کا تیزی سے شکار ہو رہا ہے، جس کی وجہ زیادہ میل جول اور کثرت سے شیشہ پینا ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’موسمی تبدیلی کے باعث نزلہ ،کھانسی، بخار والے مریضوں کی تعداد دسمبر سے جنوری کے دوران بڑھ جاتی ہے، جنہیں موزوں ادویات اور احتیاطی تدابیر کی ہدایت بھی دی جاتی ہے۔‘
ڈاکٹر عرفان صدیقی کے مطابق: ’کووڈ کی علامات میں سانس کا اکھڑنا شامل ہے، اس طرح کے مریض ہسپتال میں نہیں لائے جا رہے سو فی الحال ہمیں ضرورت پیش نہیں آئی کہ کووڈ سیل کو سرگرم کیا جائے۔
’ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ ٹیم اور سکریننگ کا نظام موجود ہے لیکن اس وقت صورت حال اتنی سنگین نہیں ہے۔‘
سندھ کی وزیر صحت عذرا فضل پیچوہو نے 20 جنوری کو ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں انہوں نے صوبہ میں کووڈ کے پھیلاؤ کی تردید کی ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ ’غلط خبریں پھیلا کر سنسنی نہ پھیلائی جائے، کرونا اب موسمی زکام جیسا ہیں، گھبرائیں نہیں۔ لوگ پریشان نہ ہوں کرونا وبا نہیں پھیل رہی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’زکام کے مریضوں کا احتیاطاً ٹیسٹ کروایا تھا، 100 مریضوں کےکرونا ٹیسٹ کیے تھے سات مثبت آئے، سات افراد میں کرونا کے معمولی اثرات پائے گئے۔‘