بلوچستان: ہرنائی میں بم دھماکہ، 11 کان کن جان سے گئے

ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر حضرت ولی کاکڑ نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکے میں پک اپ گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی گاڑی کے قریب بم دھماکے میں 11 افراد جان سے چلے گئے ہیں، جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ہرنائی کے ڈپٹی کمشنر حضرت ولی کاکڑ نے صحافیوں کو بتایا کہ دھماکے میں پک اپ گاڑی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

لورالائی ڈویژن کے کمشنر زاہد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھماکے میں 11 جان سے جانے والوں کی میتیں ہسپتال پہنچا چکی ہیں، جب کہ زخمیوں میں ایک کی حالت نازک ہے۔  

لیویز کنٹرول روم نے صحافی محمد عیسٰی کو بیایا کہ شاہرگ کوئل مائنز ایریا ٹاکری میں پک آپ گاڑی بارودی مواد سے ٹکرائی۔

وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے  شاہرگ میں مزدوروں کی گاڑی کے قریب دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے والے درندے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’دکھ کی گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا کہ ’واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔ ’ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دھماکہ خیز مواد روڑ کنارے نصب تھا۔‘

صوبائی حکومت کے ترجمان کے مطابق زخمی مزدوروں کو شاہرگ ہسپتال میں طبی امداد دی جارہی ہے۔

جس علاقے میں دھماکہ ہوا وہ کوئٹہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور ابتدائی معلومات کے مطابق  مرنے والوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر پہ در پہ حملوں کے بعد تین فروری کو وزیراعظم شہباز شریف صوبے کا دورہ کیا اور سکیورٹی کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا۔

جنوری کے اوخرا میں بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں عسکریت پسندوں سے جھڑپ میں 18 فوجیوں کی جان گئی تھی جبکہ 12 عسکریت پسند مارے گئے۔

یہ ایک ہی دن میں سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر سب سے مہلک حملہ تھا۔

اس حملے سے چند روز قبل ہی 27 اور 28 جنوری کی درمیانی شب  بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ کے تحصیل گلستان میں  عسکریت پسندوں نے ا یف سی کی ایک چوکی پر خودکش بمباروں کے ہمراہ حملہ کیا تھا، جس میں دو فوجیوں کی جان گئی جبکہ جھڑپ کے دوران دو خوکش حملہ آوروں سمیت پانچ شدت پسند مارے گئے۔

پاکستانی فوج کے مطابق اس حملے کے بعد عسکریت پسندوں سے جو اسلحہ قبضے میں لیا گیا وہ امریکہ ساختہ تھا۔  

حالیہ مہینوں میں پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

آٹھ جنوری کو بلوچستان کے ضلع خضدار میں شدت پسندوں نے حملہ کر کے کچھ سرکاری اور نجی املاک کو نذر آتش کر دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)



اسی طرح پانچ جنوری کو حکام کے مطابق بلوچستان کے شہر تربت کے قریب عسکریت پسندوں کے ایک بم دھماکے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکاروں سمیت کم از کم چھ افراد کی جان گئی اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

جبکہ شدت پسند مسافر گاڑیوں اور ٹرکوں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔

ان حملوں میں سے بیشتر کی ذمہ داری علیحدگی پسند کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرنے کا دعویٰ کرتی رہی ہیں۔

حکومت کی طرف سے صوبے میں امن و امان کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ لگانے کے علاوہ شدت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن اس کے باوجود عسکریت پسندوں پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

ایک غیر سرکاری ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کی سالانہ سکیورٹی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران پاکستانی سکیورٹی فورسز پر عسکریت پسندوں نے 444 کیے جن جن میں کم از کم 685 اموات ہوئیں۔

رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان بلوچستان میں ہوا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے ضلع ہرنائی کے علاقے شاہرگ میں دھماکے کے نتیجے میں کان کنوں کے جاں بحق ہونے پر اظہار افسوس کیا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان