پاکستان میں کام کرنے والے کینیڈا کے نجی ادارے نیوٹریشن انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب حکومت آٹا، کھانے کا تیل، چاول اور نمک میں مائیکرو نیوٹرینٹس شامل کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔
نیوٹریشن انٹرنیشنل کے پاکستان میں سینیئر پروگرام مینیجر ضمیر حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے مطابق صوبہ پنجاب میں 41 فیصد خواتین، جو بچے پیدا کرنے کی عمر میں ہیں، خون کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 25 فیصد میں وٹامن اے کی کمی ہے اور 80 فیصد سے زائد خواتین وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 52 فیصد بچوں میں خون کی کمی، 49 فیصد میں وٹامن اے کی کمی، جبکہ 70 فیصد سے زائد بچوں میں وٹامن ڈی کی کمی پائی جاتی ہے۔
نیوٹریشن انٹرنیشنل، جو کہ ایک کینیڈین ادارہ ہے، سال 2001 سے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر غذا میں مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ضمیر حیدر کے مطابق: ’نیوٹریشن انٹرنیشنل نے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر یہ لازم قرار دیا ہے کہ گندم کے آٹے میں آئرن، فولک ایسڈ، زنک اور وٹامن بی 12 ملایا جائے، لیکن پنجاب میں ابھی تک اس پر قانون سازی نہیں ہوئی۔
’چونکہ پنجاب میں آٹے کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے، جو پورے پاکستان میں جاتی ہے، اس لیے اگر ان مائیکرو نیوٹرینٹس کا استعمال اس صوبے میں بھی لازم قرار دے دیا جائے تو نہ صرف پنجاب کے لوگوں کو صحت بخش اور توانائی سے بھرپور آٹا ملے گا، بلکہ اس سے دوسرے صوبوں کو بھی فائدہ ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 50 سے 60 ہزار آٹے کی ملیں ہیں، جبکہ 150 تیل کی ملیں ہیں۔ حکومت کو اس پر قانون بنانا چاہیے تاکہ فوڈ اتھارٹی اس پر عمل درآمد کروا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے نیشنل نیوٹریشن سروے آخری بار 2018 میں کروایا تھا، اس کے بعد یہ سروے نہیں کیا گیا۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ سروے بہت مہنگا ہوتا ہے، اور اس کے لیے مختلف بین الاقوامی ڈونرز فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ جلد یہ سروے کروایا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ملک میں مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی کی تازہ ترین صورت حال کیا ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ خاص طور پر صوبہ پنجاب میں خواتین اور بچوں میں مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی شدت اختیار کر چکی ہے۔ ’تقریباً 50 فیصد خواتین اور بچے کسی نہ کسی مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی پر قابو پانے کے لیے ایک تکنیک استعمال کی جاتی ہے جسے ’فوڈ فورٹی فیکیشن‘ کہتے ہیں۔ اس میں روزمرہ کی خوراک، جیسے آٹا، پکانے کا تیل یا نمک، میں مائیکرو نیوٹرینٹس شامل کر دیے جاتے ہیں تاکہ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکے اور مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی پوری ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 52 فی صد آبادی صوبہ پنجاب میں رہتی ہے، اور اگر اس بڑے آبادی والے صوبے کے 30 سے 40 فیصد بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہوں، 40 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہوں، اور 80 فیصد خواتین وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہوں، تو ایسی صورت حال میں پیداواری صلاحیت میں کمی آتی ہے، کیونکہ ذہنی نشوونما مکمل نہیں ہو پاتی اور بیماریاں بڑھ جاتی ہیں، جس کا بوجھ معیشت پر آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ہر سال اپنے جی ڈی پی کا تین فیصد غذائیت کی کمی کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر ان سے رابطہ ممکن نہ ہو سکا۔