مخصوص نشستیں: سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے منگل کو جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا ’بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن اسے تین مخصوص نشستیں ملیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں نو جولائی 2024 کو مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہو رہی ہے (سپریم کورٹ آف پاکستان یوٹیوب)

  سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت پر فریقین کے جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے منگل کو کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ ’مشاورت کے بعد فیصلہ سنائیں گے۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی۔ گذشتہ ہفتے اس کیس میں درخواست گزار وکلا اور وفاق کے دلائل مکمل ہوئے تھے جبکہ عدالت نے جواب الجواب کے لیے منگل کا دن مقرر کیا تھا۔

سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے منگل جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا، ’بلوچستان عوامی پارٹی نے کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن اسے تین مخصوص نشستیں ملیں، الیکشن کمیشن نے بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق بے ایمانی پر مبنی جواب جمع کروایا، الیکشن کمیشن اپنے ہی دستاویزات کی نفی کر رہا ہے، کیا یہ بےایمانی نہیں؟‘

۔اس موقعے پر جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے: ’سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا تھا اس بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا کیس مختلف ہے۔‘

فیصل صدیقی نے مزید کہا ’ادارے کی سطح پر الیکشن کمیشن نے منافقت کی ہے جمیعت علمائے اسلام کے منشور میں اقلیتوں کا ذکر نہیں پھر بھی ان کو اقلیتی نشستیں دیں۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا ’آپ کہتے ہیں کہ جمیت علمائے اسلام ف کو نشستیں نہیں ملنی چاہیئں؟‘ تو فیصل صدیقی نے جواب دیا ’اس کیس کے مطابق تو نہیں ملنی چاہییں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی پارٹی اور پارلیمانی پارٹی میں فرق ہوتا ہے ’پارلیمنٹ کے اندر جو فیصلے ہوتے ہیں وہ پارلیمانی پارٹی کرتی ہے، ایسے فیصلے سیاسی پارٹی نہیں کر سکتی، پارلیمانی پارٹی سیاسی پارٹی کا فیصلہ ماننے کی پابند نہیں، جیسے وزیراعظم کو ووٹ دینا ہو تو پارلیمانی پارٹی پابند نہیں کہ سیاسی پارٹی کے فیصلے پر عمل درآمد کرے۔‘ 

جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا، ’یہ بتائیں کیا ٹیکسٹ میں لکھا ہے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دے دیں؟‘ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’آئین کے ٹیکسٹ میں ایسا نہیں لکھا ہوا۔‘ 

چیف جسٹس نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ ’آپ بار بار پی ٹی آئی کی طرف سے بات کرنے لگتے ہیں آپ سنی اتحاد کونسل پر رہیں۔۔۔ آپ کی تو عام انتخابات میں زیرو نشست تھی۔ آپ تحریک انصاف کے کیس پر دلائل دے رہے ہیں۔ آپ سب باتیں اپنے خلاف کر رہے ہیں۔‘ 

وکیل فیصل صدیقی نے عدالت میں جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  ’جنہیں آزاد امیدوار کہہ رہے ہیں وہ آزاد امیدوار نہیں ہیں۔‘ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواباً انہیں کہا ’اگر ہم آپ کے دلائل مان لیں تو آپ کا کیس ہی نہیں، آپ سمجھ جائیں گے جلد۔‘ 

وکیل فیصل صدیقی نے کہا ’الیکشن کمیشن کو کہنا چاہیے تھا کہ آپ سنی اتحاد کونسل جوائن نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے کوئی پارلیمانی سیٹ نہیں جیتی۔‘ اس پر جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے ’فیصل صدیقی صاحب آپ کی پارٹی کو تو بونس مل گیا۔ 90/95 لوگ الیکشن جیت کر آپ کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔‘ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’ہم آپ کے دلائل مان لیتے ہیں تو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو مل جائیں گی۔‘ 

تو وکیل نے جواب دیا ’مخصوص نشستیں سنی اتحادکونسل کو ملے گیں جو پارلیمنٹ میں موجود ہے۔‘ 

جسٹس اطہر من اللہ اس موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ  ’ووٹ کے حق پر کوئی بات نہیں کر رہا، عوام نے ایک مخصوص سیاسی جماعت کو ووٹ دیا۔ انتخابات کو شفاف بنانا ضروری ہے صورتحال کے مطابق ایک بڑی سیاسی جماعت کو ووٹ ملا جس کو انتخابی عمل سے نکال دیا گیا بات سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ عوام کے ووٹ کے حق کی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’2018 میں بھی انتخابات پر سنجیدہ سوالات اٹھے تھے الیکشن کمیشن پر بھی سوالات اٹھے تھے، کیا خاموش رہیں؟ عوام کا حق پامال ہونے دیں؟ کیا الیکشن نارمل حالات میں اور شفاف ہوئے تھے؟ کیا ایک بڑی سیاسی جماعت کو اپنے امیدوار دوسری جماعت میں کیوں بھیجنے پڑے۔‘ 

جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ ’پارلیمنٹ کی بات ہو رہی ہے تو ووٹ کے حق کی بات ہورہی، الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت کو انتخابات سے نکالا کیا ایسے عمل کو سپریم کورٹ کو نہیں دیکھنا چاہیے؟‘ 

جبکہ سلمان اکرم راجہ نے جواب الجواب دیتے ہوئے کہا ’سنی اتحادکونسل کے علاوہ کسی پارٹی میں شامل کونے کی کوئی آپشن نہیں تھا۔‘

چیف جسٹس نے کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ ’آپ نے پی ٹی آئی نظریاتی کا سرٹیفیکیٹ جمع کرایا، سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، خود کو پاکستان تحریک انصاف بھی کہتے ہیں، آپ کونسی جماعت میں شامل ہیں۔‘ 

اس کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل کیا رہے؟ 

الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا ’الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہیں، تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 جاری کیے پی ٹی آئی کے پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66 چیرمین پی ٹی آئی گوہرعلی خان نے دستخط کیے جب پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ اور فارم 66  جاری ہوئے تو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کروائے تھے۔‘ 

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ ’آپ کہہ رہے کہ سرٹیفیکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیرمین تحریک انصاف کا منتخب نہیں ہوا تھا؟‘ 

وکیل سکندربشیر نے جواب دیا ’سرٹیفیکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔ کاغذات نامزدگی میں حامدرضا نے سنی اتحادکونسل سے وابستگی ظاہر کی حامدرضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔‘

وکیل سکندربشیر نے عدالت کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ، 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، آٹھ فروری کو تحریک انصاف نے انٹر اپارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا اگر سات فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہوسکتا تھا، لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزادامیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل سے ضم نہیں ہوئے۔‘ 

پی ٹی آئی چئیرمین بیرسٹر گوہر کے دلائل 

جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر گوہر سے کہا کہ ’آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا ’کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفیکیٹ جمع کروائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے؟‘

بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہر امیدوار دو دو فارم جمع کروا سکتا ہے، آزادامیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔‘ 

 جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ’انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لیے آپ نے؟‘  

گوہر علی خان نے بتایا ’ایک حلقے کے لیے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفیکیٹ پہنچا دیے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات نو بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو نہیں دیا۔‘ 

کیس میں دوران سماعت اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 51 اشارہ کرتاہےکہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بنانا ہے، 2002 میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی، صوبائی، سینٹ میں نمائندگی ملی۔‘ خواتین کی نمائندگی سے متعلق اٹارنی جنرل منصور اعوان نے ماضی کی قومی اسمبلیوں میں سیٹیں بتاتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمائندگی کو بڑھانا ہے، آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیر مسلمانوں کی نمایندگی بھی اسمبلیوں میں دینا ہے۔‘ 

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے سپریم کورٹ کو سینٹ، قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہیں،اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئین کا مقصد خواتین، غیر مسلمانوں کو نمائندگی دینا ہے،اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہو گا، فارمولا سے معلوم ہوتاکہ کتنی جنرل سیٹیں ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کےلئے چاہیے ہوں گی۔‘ 

اٹارنی جنرل منصوراعوان نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دے کر فارمولا سپریم کورٹ کے سامنے رکھا۔  

سپریم کورٹ نے چھ مئی کو الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا

ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ بنایا گیا جس نے چھ مئی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا جس کے بعد تین جون کو فُل کورٹ تشکیل دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں نہ دینے کا فیصلہ دیا تھا جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن فیصلہ  جبکہ اسپیکر کے پی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کیں تھیں۔ 

الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا تھا؟ 

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔ 

الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔ لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘ 

اس وقت ایوان میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟ 

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ چھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224سے کم ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہو گئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔ 

سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان