سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں پر منگل کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان جنرل منصور اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آزاد امیدوار پارلیمانی پارٹی نہیں بنا سکتے، انہیں کسی نہ کسی پارلیمانی پارٹی میں شامل ہونا ہوتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی درخواستوں کی سماعت کی، جسے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد نو جولائی 2024 تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ اگلی سماعت پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل جواب الجواب دیں گے۔
اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل منضور اعوان نے کہا کہ ’آزادامیدواروں نے اسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہوتا ہے، جو کم از کم ایک نشست جیت کر پارلیمان میں آئی ہو۔‘
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا: ’یعنی سیاسی جماعت کے جیتے ہوئے امیدوار ہوں تو سیاسی پارٹی خودبخود پارلیمانی پارٹی بن جاتی ہے۔‘
جس پر اٹارنی جرنل نے کہا کہ ’آزاد امیدوار پارٹی بنا لے تو آرٹیکل 51 نافذ نہیں ہوگا۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے اس موقعے پر استفسار کیا کہ ’آزاد امیدوار کی اسمبلی سے باہر تو پارٹی تصور کی جائے گی۔‘
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے کہا کہ ’آزاد امیدوار کسی ایسی سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوسکتا، جو پارلیمانی پارٹی نہ ہو۔‘
اس سے قبل پیر کو اس کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل مکمل کیے تھے، جبکہ فریق جمعیت علمائے اسلام ف نے الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا لیے، دوسری جانب ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے سنی اتحاد کونسل کے دلائل اپنا لیے ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل کے دلائل
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے کیس کی سماعت کے دوران دلائل دیے کہ ’جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی، اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، اسی لیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے فہرست جمع نہیں کروائی۔ آرٹیکل 63 اے میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان فرق رکھا گیا ہے، جس سیاسی جماعت کی پارلیمنٹ میں کوئی نشست نہ ہو وہ پارلیمانی پارٹی نہیں ہوتی۔‘
عدالت نے استفسار کیا ’آٹھ فروری کو آپ کیا تھے؟ آپ کا سربراہ کون ہے؟ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ کیسے منتخب ہوتا ہے؟‘
فیصل صدیقی نے جواب دیا: ’آٹھ فروری کو ہم ایک سیاسی جماعت تھے، جب آزاد امیدواروں نے جوائن کیا تو پارلیمانی پارٹی بن گئے۔‘
الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 ریکارڈ پر موجود ہے، تحریک انصاف نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری کیے، جن پر چیئرمین پی ٹی آئی گوہرعلی خان نے دستخط کیے، جب پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ اور فارم 66 جاری ہوئے تو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے تھے۔‘
وکیل سکندر بشیر نے مزید کہا کہ ’کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم 66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جاری کیے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفیکیٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانے چاہیے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں۔‘
اس موقعے پر جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ ’آپ کہہ رہے کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف انتخاب نہیں ہوا تھا؟‘
وکیل سکندربشیر نے جواب دیا: ’سرٹیفکیٹ جمع کرواتے وقت جب چیئرمین تحریک انصاف منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں۔ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامدرضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل اپنے آپ کو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا، حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا۔ انہوں نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جمع کروایا اور ہر دستاویز ان کی پچھلے دستاویز سے مختلف ہے۔‘
وکیل سکندر بشیر نے عدالت کو بتایا کہ ’الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ نے اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، آٹھ فروری کو تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر سات فروری کو بھی تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کا بتا دیتے تو کچھ ہوسکتا تھا۔ لوگ رکن قومی اسمبلی بطور آزاد امیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل میں ضم نہیں ہوئے۔‘
پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر کے دلائل
جسٹس جمال مندوخیل نے بیرسٹر گوہر سے کہا کہ ’آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کہ کیا پی ٹی آئی نے ڈیکلریشن، سرٹیفیکیٹ جمع کروائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی جمع ہیں، چند میں نہیں۔ آپ کا کون سا بیان درست ہے؟‘
بیرسٹر گوہر نے عدالت کو بتایا کہ ’ہر امیدوار دو دو فارم جمع کروا سکتا ہے، ہم نے آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے فارم جمع کروائے، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے، دو کیسے لکھ لیے آپ نے؟‘
گوہرعلی خان نے بتایا: ’ایک حلقے کے لیے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ہیں، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا ہے، الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے گئے۔ 22 دسمبر کو چار بجے سرٹیفیکیٹ پہنچا دیے تھے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات نو بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو نہیں دیا۔‘
اٹارنی جنرل پاکستان کے دلائل
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 51 اشارہ کرتا ہے کہ مخصوص نشستوں کا مطلب خواتین کو با اختیار بنانا ہے، 2002 میں پہلی مرتبہ خواتین کو قومی، صوبائی، سینٹ میں نمائندگی ملی۔
خواتین کی نمائندگی سے متعلق اٹارنی جنرل منصوراعوان نے ماضی کی قومی اسمبلیوں میں نشستیں بتاتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد 60 مخصوص نشستوں کا مطلب نمائندگی کو بڑھانا ہے، آرٹیکل 51 کا مطلب خواتین کے ساتھ غیر مسلمانوں کی نمائندگی بھی اسمبلیوں میں دینا ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سیاسی جماعت ہی ووٹ حاصل کرکے مخصوص نشستوں کے لیے اہل ہوتی ہے۔ اسمبلیوں کی نشستیں جنرل انتخابات اور پھر مخصوص نشستوں سے مکمل کی جاتی ہیں، اسمبلیوں میں نشستوں کو مکمل کرنا ضروری ہے، آئین کا مقصد خواتین، غیر مسلمانوں کو نمائندگی دینا ہے، اگر اسمبلی میں نشستیں مکمل نہیں ہوں گی تو آئین کا مقصد پورا نہیں ہو گا، فارمولے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتنی جنرل نشستیں ایک مخصوص نشست حاصل کرنے کےلیے چاہیے ہوں گی۔‘
اٹارنی جنرل منصوراعوان نے بلوچستان اسمبلی کی مثال دے کر فارمولا سپریم کورٹ کے سامنے رکھا۔
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں: اب تک کیا ہوا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق چھ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں اور قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔‘
الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کروائی، لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی اور مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘
اسی طرح پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، جس پر سنی اتحاد کونسل نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن کے فیصلے جبکہ سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔
ابتدا میں اس کیس کی سماعت کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ بنایا گیا، جس نے رواں برس چھ مئی کو الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا سنی اتحاد کونسل کی نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ معطل کر دیا اور اٹارنی جنرل کی استدعا پر فل کورٹ یا لارجر بینچ بنانے کے لیے معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا، جس کے بعد تین جون کو فل کورٹ تشکیل دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے والے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ ’اراکین کے اب تک ڈالے گئے ووٹ اور قانون سازی میں رائے معطل تصور نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق ماضی سے نہیں بلکہ آج سے ہوگا۔ آج سے تین جون کے درمیان ان مخصوص نشستوں کے ووٹ سے کوئی نئی قانون سازی نہیں سکتی۔‘
ایوان میں پارٹی پوزیشن
قومی اسمبلی میں فی الحال 13 جماعتیں ہیں، جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ چھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں، جو دو تہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہے۔
آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہو گئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی جو کہ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ معطل کرنے کے بعد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے، جن میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔