پشاور ہائی کورٹ نے جمعرات کو سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواستیں خارج کردیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور سید ارشد علی پر مبنی پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
جمعرات کو سماعت کے آغاز پر سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ عام انتخابات سے پہلے 22 دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا نشان لیا گیا، تاہم پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور پھر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کیا۔
بیرسٹر علی ظفر کے مطابق اس کے بعد ہمارے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن میں گئے اور انہیں الگ الگ نشانات دیے گئے۔
جس پر جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ ’قومی اسمبلی میں کتنی نشستیں ہیں اور صوبائی اسمبلیوں میں کتنی ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ’قومی اسمبلی میں 91، خیبرپختونخوا میں 90، پنجاب میں 107، سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک نشست ہے۔‘
انہوں نے عدالت عالیہ کو بتایا: ’تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے اور قومی اسمبلی میں 86، خیبرپختونخوا میں 90، پنجاب میں 107، سندھ میں 9 اور بلوچستان میں ایک رکن نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔ ‘
بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ سنی اتحاد کونسل ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اور اس کا انتخابی نشان بھی ہے جبکہ انتخابات میں حصہ لینا اتنی بڑی بات نہیں ہے۔
اس موقعے پر جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ ’یہ بتائیں اگر انتخابات میں حصہ نہیں لیا تو پھر کیا اثرات ہوں گے؟‘ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ میں ایک سیاسی جماعت ہوں اور میرے بنیادی آئینی حقوق ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’جب سیاسی جماعت بن جائے تو ان کے پاس باقی حقوق آتے ہیں۔ مطلب ایک جماعت انتخابات لڑ بھی سکتی ہے، بائیکاٹ بھی کر سکتی ہے اور حکومت سازی بھی کر سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستیں ایک خاص مقصد کے لیے رکھی گئی ہیں اور اس کا مقصد خواتین اور اقلیتوں کو برابر حق دینا ہے۔
بقول بیرسٹر علی ظفر: ’یہ اس لیے نہیں ہیں کہ انہیں بانٹا جائے بلکہ مخصوص نشستیں جنرل نشستیں حاصل کرنے کے تناسب سے دی جاتی ہیں۔‘
اس موقعے پر جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ’مخصوص نشستیں تب ملتی ہیں جب سیاسی جماعتوں نے نشستیں جیتی ہوں اور سنی اتحاد کونسل نے کوئی نشست جیتی ہی نہیں۔‘
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ’جب آزاد امیدواروں نے شمولیت اختیار کی تو یہ نشستیں سنی اتحاد کونسل کی ہوگئیں۔‘
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’قانون میں لفظ سکیور آیا ہے، آپ (سنی اتحاد کونسل) نے نشستیں سکیور نہیں کیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے مزید کہا کہ ’سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے سے آپ نے پی ٹی آئی کیس کمزور نہیں کیا کیونکہ آپ کو پتہ تھا کہ انہوں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔‘
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے پاس انتخابی نشان نہیں تھا اور پارٹی سربراہ بھی نہیں تھا۔‘ جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد آپ کے پاس پھر بھی وقت تھا، آپ انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے، آپ نے نہیں کیا۔‘
جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا: ’ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کیا لیکن ابھی تک الیکشن کمیشن نے اسے مانا نہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ ’اگر آپ پی ٹی آئی جوائن کرتے تو پھر بھی کچھ بات بن جاتی لیکن آپ نے ایسی پارٹی کو جوائن کیا کہ جس نے کوئی سیٹ ہی نہیں جیتی۔‘
مخصوص نشستوں کی دیگر جماعتوں میں تقسیم کے حوالے سے عدالت نے بتایا کہ ’یہ ضرور ہے کہ آپ کی پارٹی نے نشستیں جیتی ہیں لیکن دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں نہ دی جائیں؟‘
بیرسٹر علی طفر نے اس حوالے سے بتایا کہ 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست بعد میں جمع کروائی اور انہیں نشستیں مل گئیں۔
ان کے مطابق: ’الیکشن کمیشن نے ہمیں کہا کہ درخواست میں اس حوالے سے دستاویزات جمع نہیں کروائے گئیں جبکہ وہ دستاویز الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔‘
جس پر جسٹس اعجاز انور کے ان ریمارکس پر کہ ’باپ کا حق تو زیادہ ہے‘، عدالت میں قہقے لگ گئے اور اسی پر بیرسٹر ظفر ہنستے ہوئے کہا کہ ’پھر ہمیں بیٹا سمجھ لیجیے۔‘
عدالت عالیہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’باپ نے نشستیں جیتی تھیں اور قانون میں جو الفاظ لکھے ہیں وہ یہ ہیں کہ انتخابات میں حصہ لینے والے کو نشستیں ملیں گی۔ یہ نہیں لکھا کہ ایک سیاسی جماعت باہر بیٹھی ہو اور انتظار کریں کہ آزاد امیدوار آکر اسے جوائن کریں۔‘
اس موقعے پر ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مبشر منظور نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو پھر وہ پارلیمنٹری پارٹی بن گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سیاسی جماعت کی تعریف یہ ہے کہ اس نے الیکشن میں حصہ لیا ہو، یہ نہیں ہے کہ اس الیکشن میں ہوں۔‘
مبشر نظیر کے مطابق: ’اگر 2018 میں بھی (کسی جماعت نے الیکشن میں) حصہ لیا تو پھر بھی وہ سیاسی پارٹی ہے۔‘
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’آپ سے تو صرف مخصوص نشستیں لی گئی ہیں، باقی حقوق تو آپ کے ہیں، وہ نہیں لیے گئے۔‘
عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا اور بعدازاں یہ درخواستیں خارج کردی گئیں۔