سعودی عرب نے جمعے کو 49 ملکوں کے لیے ویزے کا نیا نظام متعارف کروا کے غیرملکی سیاحوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں۔ حکومت نے غیرملکی کمپنیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسے شعبے میں سرمایہ کاری کریں جس سے امید ہے کہ اس سے 2030 تک ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں غیرملکی سرمائے کا حصہ 10 فیصد ہو جائے گا۔
قدامت پسند مسلمان سلطنت نے نسبتاً کئی دہائیوں تک اپنے دروازے بند رکھے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں سخت معاشرتی ضابطوں میں نرمی کی گئی ہے جن میں عوامی مقامات پر مردوں اور خواتین کے الگ الگ رہنے اور خواتین کا سر سے پیر تک جسم کو ڈھانپنے والا سیاہ رنگ کا عبایا پہننا شامل ہے۔
سعودی عرب کے محکمہ سیاحت کے سربراہ احمد الخطیب نے غیرملکی خواتین کے لیے عبایا کی پابندی کے خاتمے کے سرکاری اعلان سے پہلے ایک انٹرویو میں خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ ان خواتین کو ساحل سمندر جیسے عوامی مقامات پر مناسب لباس زیب تن کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ شراب پر پابندی برقرار رہے گی۔ ’تاہم بہت سی دوسری سہولتوں سے لطف اٹھانے کے لیے کافی تعداد میں غیرملکی سیاح سعودی عرب آئیں گے۔‘
سعودی عرب کے لیے آن لائن ویزے کی سہولت ہوگی۔ ویزا فیس 80 ڈالر(65 پاؤنڈ) مقرر کی گئی ہے۔ ماضی کے برعکس غیرملکی خواتین اکیلی بھی سعودی عرب جا سکیں گی۔ مسلمانوں کے مقدس شہروں مکہ اور مدینہ میں داخلے پر پابندی ہوگی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کس کس ملک کے شہری سعودی ویزے کے درخواست دے سکتے ہیں اس حوالے سے تفصیلات جمعے کو کسی وقت جاری کر دی جائیں گی۔ احمد الخطیب نے کہا کہ سیاحوں کی آمد کے حوالے سے چین، جاپان، یورپ اور امریکہ بڑے اہداف ہیں۔
اب تک سعودی عرب آنے والے غیرملکی زیادہ تر کارکنوں اور ان کے لواحقین تک محدود تھے۔ کاروباری افراد اور عازمین حج کو مکہ اور مدینہ کے لیے خصوصی ویزے جاری کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب میں تفریح کے لیے آنے والے غیرملکی سیاحوں کا منصوبہ کئی سال تک زیرغور رہا ہے۔ قدامت پسند سوچ اور بیوروکریسی منصوبے پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ کھیل کے مقابلوں اور موسیقی کے پروگراموں کے لیے ای ویزا گذشتہ دسمبر میں متعارف کرایا گیا تھا۔
حالیہ اقدامات سعودی عرب کے حقیقی حکمران ولی عہد محمد بن سلمان کے ان جرات مندانہ منصوبوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد نئی صنعتوں کا قیام ہے تاکہ تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کا خام تیل پر انحصار کم کیا جائے اور ماضی میں پابندی کا شکار تفریح کے شعبے کو متعارف کروا کے معاشرے میں وسیع النظر بنایا جائے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے اصلاحات کے عمل کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔
غیرملکی سرمایہ کاری کی تلاش
سعودی کمیشن برائے سیاحت اور قومی ورثہ احمد الخطیب نے کہا ہے کہ سعودی عرب ’مکمل طور پر محفوظ‘ ملک ہے اور حملے سے سیاحوں کو متوجہ کرنے کا منصوبہ متاثر نہیں ہوگا۔
سیاحت کا فروغ بنیادی ڈھانچے کی کمی کے باجود سعودی ولی عہد کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ احمد الخطیب نے اندازہ لگایا ہے کہ معیشت کی ترقی کے لیے ڈھائی ارب ریال (67 ارب ڈالر) کی سرمایہ کی ضرورت ہے جس میں 2030 تک ہوٹل کے پانچ لاکھ کمرے شامل ہیں۔ بڑے منصوبوں میں سے نصف کے لیے سرکاری فنڈ اور باقی کے لیے نجی سرمایہ کاری چاہیے۔
سعودی حکومت 2030 تک سالانہ 10 کروڑ غیرملکی سیاحوں کی آمد چاہتی ہے۔ اس وقت یہ تعداد چار کروڑ ہے۔ حکومتی ہدف کے مطابق مجموعی قومی پیداوار میں غیرملکی سرمایہ کا موجود تین فیصد کا حصہ 10 فیصد کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
احمد الخطیب نے سعودی عرب کے بارے میں بعض مغربی ممالک میں منفی تاثر سے متعلق سوال پر احمد الخطیب نے کہا: ’مجھے پورا یقین ہے کہ ان کی سوچ بہتر ہوگی جب مغربی ملکوں کے لوگ سعودی عرب آ کر یہاں کی زندگی کا تجربہ کریں گے۔ میرا وعدہ ہے کہ وہ عظیم یادیں لے کر واپس جائیں گے۔‘
خلیجی ملک کی سرحدیں شمال میں عراق اور جنوب میں یمن کے ساتھ ملتی ہیں۔ سعودی عرب کو اپنے صحرا پر فخر ہے لیکن یہاں سرسبز پہاڑ، عمدہ ساحل اور تاریخی مقامات بھی ہیں جن میں پانچ یونیسکو کے عالمی ورثے میں بھی شامل ہیں۔
احمد الخطیب نے مزید کہا: ’ہم معتبر ہیں۔ ہم عظیم ثقافت کے مالک ہیں جسے دیکھنے کے لیے سیاح بڑی تعداد میں آنا پسند کریں گے۔ وہ اس ثقافت کے بارے میں مزید جاننا، اسے دیکھنا اور اس کا تجربہ کرنا چاہیں گے۔
سعودی عرب میں ترقیاتی مہم کا مقصد سیاحت کے شعبے میں 10 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔ لاکھوں سعودی شہریوں کو کارکنوں کی ملکی طاقت کا حصہ بنانا ولی عہد کے لیے بڑا چیلنج ہے جو اب تک ملک میں بیروزگاری میں معمولی کمی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ملک میں اس وقت بیروزگاری کی شرح 12 فیصد سے زیادہ ہے۔