سعودی حکومت کے ایک بیان کے مطابق خواتین کو مرد ’سرپرست‘ کی اجازت کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے کا پروانہ مل گیا۔ اس پابندی کی وجہ سے عالمی برادری کی تنقید اور سعودی خواتین کی جانب سے ملک سے فرار جیسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔
یہ تاریخی اصلاحات طویل عرصے سے چلتے آرہے سرپرستی کے نظام کا خاتمہ کر رہی ہیں جس میں بالغ خواتین کو قانونی طور پر غیر بالغ مانتے ہوئے ان پر ان کے شوہر، والد اور باقی مرد رشتہ داروں کو زیادہ اختیار دیا گیا تھا۔
یہ فیصلہ اس بارے میں سرگرم افراد کی سالوں کی مہم کا نتیجہ ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب خواتین کی جانب سے اپنے سرپرستوں کی مرضی کے خلاف ملک سے فرار کے متعدد واقعات گذشتہ سال کی ان اصلاحات کے باوجود منظر عام پر آرہے تھے جن میں خواتین کے گاڑی چلانے پر عائد پابندی کو ختم کیا گیا تھا۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد پابندی تھی۔
جمعرات کو سعودی سرکاری گزٹ ام القرا میں شائع ہونے والے حکومتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی سعودی شہری کی جانب سے دی جانے والی درخواست کے بعد انھیں پاسپورٹ جاری کیا جائے گا۔‘
حکومت کے حامی اخبار عوکاز اور مقامی میڈیا میں چھپنے والے اعلی حکام کے بیانات کے مطابق یہ قانون کسی بھی 21 سال سے زیادہ کی خاتون کو اجازت دیتا ہے کہ وہ پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے سرپرست کی مرضی کے خلاف ملک سے باہر سفر کر سکے۔
سعودی عرب میں ایک طویل عرصے سے خواتین پر شادی، تجدید پاسپورٹ اور ملک چھوڑنے کے لیے اپنے سرپرست سے اجازت کی پابندی درکار تھی۔
حکومت کے حامی اخبار سعودی گزٹ کے مطابق ان اصلاحات کے بعد خواتین کو نقل و حمل کی آزادی مل جائے گی۔ اخبار نے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے سعودی خواتین کے لیے ایک بڑا قدم قرار دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر جشن کی سی صورتحال پیدا ہوگئی اور ’خواتین کے سفر پر مردوں کی کوئی سرپرستی نہیں‘ کا ٹرینڈ ہیش ٹیگ کرنے لگا۔ جس کے بعد مزاحیہ میمز کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جن میں سوٹ کیس اٹھائے خواتین کو فرار ہوتے اور مردوں کو ان کا پیچھا کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
سعودی خاتون کاروباری شخصیت منا ابو سلیمان ٹوئٹر پر کہتی ہیں: ’کچھ خواتین کے سفر کرنے کے خواب کبھی پورے نہ ہو سکے چاہے اس کی وجہ بیرون ملک تعلیم ہو، ملازمت ہو یا انہیں صرف سفر کی خواہش ہو۔ اس تبدیلی کا مطلب ہے کہ خواتین اپنی قانونی حیثیت کی خود مالک ہیں۔‘
Major #Saudi news..
— Muna AbuSulayman منى (@abusulayman) August 2, 2019
Confirmation. Adulthood set at 21 for both males and females. This law means that women no longer require a guardian's permission to leave prison or shelters (which had started only during King Abduallah and was not an issue before that)... https://t.co/9SerHzOCsH
جمعرات کو کیے جانے والے اعلان میں سعودی خواتین کو ہمیشہ سے مردوں کا حق سمجھے جانے والا بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن کا حق بھی دے دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کی شادی اور طلاق جیسے معاملات اور غیر بالغ بچوں کی سرپرست کا درجہ بھی دے دیا گیا ہے۔
کریک ڈاؤن اور اصلاحات:
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عالمی برادری کی جانب سے سعودی عرب پر انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔ جن میں ان خواتین پر مقدموں کا معاملہ بھی شامل ہے جو مرد سرپرستی کے قوانین کے خاتمے کے لیے مہم چلا رہی تھیں۔ مہم چلانے والے افراد کے مطابق ان خواتین میں ایک معروف مہم چلانے والی خاتون لوجین الہتھلول بھی شامل ہیں جنہوں نے اسی ہفتے اپنی 30ویں سالگرہ سعودی جیل میں گزاری ہے۔
کچھ خواتین کی جانب سے ان اصلاحات کے باوجود ملک سے فرار کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ 18 سالہ رہف انقنون جنہوں نے جنوری میں بنکاک سے اپنی سیاسی پناہ کی درخواست ٹویٹ کی تھی۔ وہ اپنے خاندان سے فرار ہو کے تھائی لینڈ پہنچی تھیں۔ اس واقعے نے عالمی برادری کی کافی توجہ حاصل کی تھی۔ اس کے بعد دو سعودی بہنوں کو اپنے خاندان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ہانگ کانگ سے ایک تیسرے ملک بھیجنے کا واقع بھی سامنے آیا تھا۔ دونوں بہنوں کی سکیورٹی کی وجہ سے اس ملک کا نام نہیں بتایا گیا تھا اور پھر دو سعودی بہنوں کے جارجیا فرار کا واقع بھی منظر عام پر آیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ اصلاحات سعودی عرب جیسے پدرشاہی معاشرے میں خاندانوں کے درمیان تنازعات کی وجہ بن سکتی ہیں۔
گذشتہ سال ایک سعودی عدالت نے ایک 24 سالہ خاتون کے حق میں فیصلہ دیا تھا جنہوں نے اپنے والد کے ان کو پاسپورٹ نہ جاری کرنے کے حق کو چیلینج کیا تھا لیکن جمعرات کو اعلان ہونے والے قانون تک انہیں سفر کے لیے اپنے والد کی اجازت درکار تھی۔