چند ماہ قبل خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کی ہدایت پر سابق فاٹا سے موجودہ سینٹ اور قومی اسمبلی سے مختلف سینیٹروں اور ایم این ایز پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کیا تھا۔
ان کا مینڈیٹ پشتون نوجوانوں کی ابھرتی ہوئی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ سے بامعنی مذاکرات کرنے اور ان کے مسائل و مطالبات سننے اور حل کرنا تھا۔
پی ٹی ایم کی طرف سے اس کمیٹی اور اس کے اختیارات اور اس سے مذاکرات، مذاکرات کے دائرہ کار اور طریقہ کار اور اس کے ساتھ مذاکرات کے شرکا، اس کا ایجنڈا وغیرہ طے ہونا باقی تھا کہ درمیان میں اس عمل کو موخر کر دیا گیا۔
پی ٹی ایم کے کئی کارکن گرفتار ہوئے، دو ایم این ایز پر خڑکمر واقعے کی وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات بنے جس کی وجہ سے انہوں نے تین ماہ سے زائد کا عرصہ جیل میں گزارا۔ اب جب کہ وہ ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں، مذاکرات اور مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لیے ماحول سازگار ہے، جہاں سے رابطے ٹوٹے تھے وہیں سے ایک بار پھر جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔
سابق فاٹا اور بالخصوص وزیرستان سے متعلق مسائل کے حل کے لیے پی ٹی ایم کو اس کمیٹی کے سامنے اپنا کیس رکھنا ہو گا۔ اپنے مسائل حل کرنے کے لیے واحد راستہ مل بیٹھ کر بات چیت ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے مشران کو مسائل کا حل ڈھونڈنے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کے ساتھ اعتماد اور اعتبار کی فضا بھی قائم کرنی ہے۔ (ریاست کا نام اس لیے نہیں لے سکتے کیونکہ ریاست اور عوام کے درمیان آئین ہے۔ جبکہ حکومت سے مذاکرات تحریک لبیک بھی کر رہی ہے اور دوسرے گروپ بھی)۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین (اے ایف پی)آغاز میں جو مذاکرات اور بیٹھک ہوئی اس میں دونوں اطراف سے بداعتمادی کا عنصر واضح تھا۔ ایک طرف تحریک اپنے شدید احتجاجی سیاست سے پیچھے نہیں ہٹتی تھی اور دوسری طرف حکومت دوران مذاکرات گرفتاریوں کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس بداعتمادی کو ختم کرنے کے لیے دونوں کو ماہ دو ماہ مذاکرات کا دورانیہ رکھنا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ اس تمام تر صورت حال میں اعتماد و اعتبار کہاں تک اور کتنا برقرار رہتا ہے۔ دونوں کو دیکھنا ہو گا کہ مذاکراتی عمل ملک کے آئین و قانون کے مطابق ہو اور ایسے کسی فعل سے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرے دونوں کو گریز کرنا ہو گا۔
میں خود شروع دن سے فاٹا انضمام کے حق میں تھا، حالانکہ وہ موجودہ حالات میں ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا، لیکن شروعات اچھی ہیں اور بہتری کی امید ابھی بھی باقی ہے۔ پی ٹی ایم سے ایک امید بندھی کہ اب شاید ہمارے حقیقی مسائل کا حل ممکن ہو اور ہم ملک کے برابر کے شہری ہونے کے ساتھ ساتھ پرامن فضاوں میں سکھ کی سانسیں لے سکیں۔
اب پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کو اپنے تمام مطالبات اس کمیٹی کے سامنے رکھنے ہوں گے اور یہ خیال رکھنا ہو گا کہ جن سیاسی مداریوں کی سیاست گذشتہ ایک صدی سے لاحاصل مطالبوں پر چلتی آ رہی ہے وہ اس تحریک کو اپنی دفن شدہ سیاست کی بھینٹ تو نہیں چڑھا رہے؟ کہیں مشر منظور پشتین اور پی ٹی ایم اس کے عام حامیوں کو اپنے صدیوں پرانے لاحاصل سیاسی نعروں پر تو نہیں ورغلا رہے؟
اب دیکھنا ہے کہ جیسے ہی مذاکرات کی اور شر کے بجائے خیر کی بات ہو گی یہ شرپسند کسی پشتون صحافی یا معروف اینکر کو تیسرا فریق کا چیلا بناتے ہی، کسی کو ایجنسیوں والا اور کسی کو کچھ اور بنا دیتے ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو کنفیوز کرنا ہے کہ مذاکرات تو ہو ہی نہیں سکتے۔ رشتہ تو آئین کا ہے۔ جرگے تو دشمن کرتے ہیں۔ ہم کون سا بندوق لے کر سرحد پر بیٹھے ہیں؟
ہمیں ارمان شہید کے ارمانوں کے ساتھ ساتھ سالوں سے انتظار کرتے ان تمام ہزاروں لاپتہ ساتھیوں، بارودی سرنگوں سے مسخ شدہ چہروں، کٹے ہاتھوں اور ٹانگوں اور کیمپوں میں گلتے سڑتے ارمانوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔ جن مطالبات کے لیے مجھ سمیت عالم زیب محسود اور سینکڑوں دیگر دوست جیلوں میں گئے، اپنے گھر والوں، دوستوں اور چاہنے والوں کو پریشان کیا، اپنا قیمتی وقت اور خون پسینہ سوشل میڈیا پر، سڑکوں پر احتجاجوں اور جلسوں میں ضائع کیا کہیں وہ لاحاصل صدیوں پرانے مطالبات ان درپیش اصل اور حقائق پر مبنی مطالبات کو پس پشت تو نہیں لے کر جا رہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمالی و جنوبی پشتون علاقوں میں جو بھی فوری حل طلب مسائل درپیش ہیں، وہاں کے علاقوں کے نمائندگان کو اس کمیٹی کا حصہ بنانا چاہیے۔ اگر آج خدا نخواستہ ہم مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھتے تو دس سال بعد ہمیں پھر بھی بیٹھنا ہو گا۔ اس بابت افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے جو مذاکرات 30 سال پہلے نہیں ہونے دیے گئے آج انہی مذاکرات کا پھر سے ہر ایک افغان شہری مطالبہ کر رہا ہے۔ لیکن اس دوران جو لاکھوں انسان مارے گئے، اپاہج و لاپتہ ہوئے ان کا جواب کون دے گا؟ اسامہ، حقانی، گلبدین حکمت یار، ڈاکٹر اشرف غنی، جنرل دوستم یا ملا عمر؟
ہو سکتا ہے کہ آج سے ٹھیک 10سال بعد پشتون تحفظ موومنٹ کا بھی یہی حال ہو۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں 25 سے 30 لوگ تحریک کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اگر یہ ہٹ دھرمی قائم رہی تو مزید جانوں کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
جو مذاکرات ہم نے کل دس بیس سال بعد کرنے ہیں ان کو آج کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ میری امید قائم ہے کیوں کہ منظور پشتین نے اسلام آباد میں ایک اجلاس کے دوران فرمایا تھا کہ ’حکومت اگر کسی بچے کو بھی مذاکرات کے لیے بھیجتی ہے تو ہم اس سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف آپ گالیاں دیں اور دوسری طرف وہ آپ کے مسئلے حل کریں۔ حکومتی اداروں کو بھی چاہیے کہ اپنی عوام کو دھوکے میں کبھی نہ رکھیں۔ ایف آئی آرز و پکڑ دھکڑ کا ماحول، ای سی ایل وغیرہ مذاکرات کے اختتام اور نتائج تک ایک طرف رکھ دیں کیونکہ دلوں میں بغض ہوگا تو مذاکرات کی کامیابی ناممکن ہی رہے گی۔
۔۔۔۔۔
نوٹ: حیات پریغال پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم رہنما ہیں۔ وہ ٹوئٹر اکاونٹ پر اپنے آپ کو کالومسٹ، بلاگر، نیوز ایڈیٹر اور ہیومنسٹ کہتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر اپنے اکاونٹس کے ذریعے تنظیم کے لیے سرگرم ہیں۔ انہیں گذشتہ برس گرفتار بھی کیا گیا تھا اور عدالت سے ضمانت پر ان کی رہائی ممکن ہوئی تھی۔