اسلام آباد میں واقع بحریہ یونیورسٹی کے بزنس سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی چوتھی منزل سے جمعرات کو بزنس سٹڈیز کی طالبہ حلیمہ کے گرنے کا واقعہ پیش آیا۔ حلیمہ کو پہلے پمز ہسپتال اور پھر کمبائنڈ ملٹری ہپستال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگئیں۔
یونیورسٹی کے طالب علم حلیمہ کی موت کو یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت قرار دے کر احتجاج کر رہے ہیں۔
حلیمہ کی موت کیسے ہوئی؟
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کے مطابق حلیمہ کی موت یونیورسٹی کی غیر مکمل عمارت کی چوتھی منزل سے گر کر ہوئی۔ یونیورسٹی کے باہر احتجاج کرنے والے طلبہ کا بھی یہی موقف ہے، جن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی نے پیسے بنانے کے لیے مذکورہ عمارت کو کھولا، جہاں بزنس سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ موجود ہے۔
بی ایس جیو فزکس کے طالب علم اسامہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یونیورسٹی کی طرف سے اس واقعے پر غلط بیانی بھی کی جا رہی ہے کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے حلیمہ کے والدین کو کہا تھا کہ وہ سیڑھیوں سے گری تھیں۔
یونیورسٹی کی مجرمانہ غفلت؟
شیریں مزاری نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ یہ کیس مجرمانہ غفلت کا کیس ہے اور بحریہ یونیورسٹی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ انہوں نے وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود سے بھی درخواست کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ جمعے کی صبح یونیورسٹی کے ریکٹر ریئر ایڈمرل (ر) محمد شفیق نے احتجاج کرنے والے طلبہ سے خطاب میں اعتراف کیا تھا کہ زیرِ تعمیر عمارت کو استعمال کرنا غلطی تھی اور وہ اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ اس کی شفاف تحقیقات ہوں۔
at the very least this is a case of criminal negligence - Bahria University must be held responsible. It shd come under federal jurisdiction so HEC & Min of Ed @Shafqat_Mahmood must institute an indep inquiry with a time frame to see where responsibility must be laid
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 27, 2019
طلبہ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ حلیمہ کو گرنے کے بعد پمز ہسپتال کیوں بھیجا گیا جبکہ یونیورسٹی کے بالکل ساتھ پاکستان نیوی کا پی این ایس حفیظ ہسپتال اور پاکستان ایئر فورس کا بالکل نیا ہسپتال موجود تھا۔
ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی غفلت سے زیادہ افسوس ناک واقعے کے بعد انتظامیہ کا رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ طالبہ کو پمز ہسپتال سے سی ایم ایچ لے جایا گیا اور اسی دوران اس کی موت ہو گئی۔ انہوں نے یونیورسٹی اور پمز انتظامیہ سے سوال کیا کہ انہوں نے والدین کو بتائے بغیر کیسے لڑکی کو منتقل کیا۔
The critically injured girl was taken to PIMS & then removed to CMH it is alleged and in the process she died. Why did Bahria Uni ppl shift her without parents being informed & why did PIMS @zfrmrza allow the shifting without chking for parental consent?
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 27, 2019
بی ایس جیو فزکس کے طالب علم اسامہ ایاز کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی یونیورسٹی انتظامیہ کا رویہ منفی رہا ہے کیونکہ دو مہینے پہلے ایک طالب علم ثاقب کھوڑو نے ایک ہی سمسٹر میں چار دفعہ فیل کیے جانے پر خودکشی کرلی تھی۔
اس کے برعکس کچھ طلبہ ایسے بھی ہیں جو احتجاج کرنے والوں سے متفق نہیں۔
ایک طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جہاں احتجاج ہو رہا ہے وہاں انتظامیہ یہ سوال بھی کر رہی ہے کہ حلیمہ اس جگہ پر کرنے کیا گئی تھیں؟ جبکہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے یونیورسٹی انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی نے وارننگ سائن کیوں نہیں لگائے تھے اور طالب علموں کو ایسی جگہ تک رسائی کیوں فراہم کی گئی جو مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوئی تھی؟
Apart from shocking calousness on how we treat our students, why did the Uni not clearly have warning signs in this building? why were students allowed access to a building not fully constructed? Even more disturbing is the way the Uni authorities behaved after accident happened.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 27, 2019
دفاتر کو محفوظ جگہ بنانے کے لیے دنیا بھر میں قوانین موجود ہیں جہاں کسی بھی خطرے والی جگہ پر خطرے کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ذیلی تنظیم آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ایڈمنسٹریشن کے قواعد کے مطابق نہ صرف خطرے والی جگہ پر خطرے کی نشاندہی کی ضرورت ہے بلکہ انتظامیہ پر یہ بھی لازم ہے کہ اس جگہ پر موجود افراد کو اس خطرے کے بارے میں سمجھائیں۔
طلبہ کے مطالبات
انڈپینڈنٹ اردو نے احتجاج کرنے والے طلبہ سے سوال کیا کہ حلیمہ کی موت کے بعد ان کے کیا مطالبات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ریکٹر ان کے سامنے آ کر مستعفی ہوں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ کو بتایا گیا کہ ریکٹر نے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر طلبہ کا کہنا ہے کہ جب تک ریکٹر کا استعفی سامنے نہیں آ جاتا وہ تب تک احتجاج کرتے رہیں گے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے احتجاج کرنے والے طلبہ کے پاس بھیجے گئے طالب علم مرزا حمزہ فواد کا کہنا تھا کہ ریکٹر نے سب کے سامنے مستعفی ہونے کا کہا ہے۔
کیا یونیورسٹی انتظامیہ حلیمہ کے والدین اور طلبہ کو دھمکا رہی ہے؟
حلیمہ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر #JusticeforHaleema کا پیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا، جہاں مختلف طلبہ نے یہ الزام عائد کیا کہ حلیمہ کے والدین پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی کارروائی نہ کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس حوالے سے طلبہ سے پوچھا تو الیکٹریکل انجینیئرنگ کے طالب علم عثمان جدون کا کہنا تھا کہ حلیمہ کے گھر والوں کا تعلق بھی نیوی سے ہے، اس لیے وہ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شکایت نہیں کریں گے۔
جب طلبہ سے مزید پوچھا گیا کہ والدین کو دھمکانے کی خبروں میں کتنی صداقت ہے تو بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایسا صرف سنا ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹی کی جانب سے بھیجے گئے طالب علم مرزا حمزہ فواد کا کہنا تھا کہ انہیں طلبہ نے یہ شکایت کی ہے مگر اس کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی۔
احتجاج کرنے والے طلبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اساتذہ اور ریکٹر نے حلیمہ کے کلاس فیلوز کو بلا کر یہ بھی کہا کہ اگر آپ لوگوں نے احتجاج کیا تو آپ لوگوں کو ڈگری جاری نہیں کی جائے گی۔
ان تمام الزامات پر موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے بحریہ یونیورسٹی کی پبلک ریلیشنز آفیسر اور پمز ہسپتال کے ترجمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر وہاں سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
تاہم بحریہ یونیورسٹی نے اپنی جاری کردہ پریس ریلیز میں حلیمہ امین کی افسوس ناک حادثے میں ہلاکت پر دکھ کا اظہار کیا۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ بحریہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ اس دکھ کی گھڑی میں حلیمہ امین کے خاندان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔
بحریہ یونیورسٹی کا کہنا تھا کہ طالبہ کو حادثے کے بعد یونیورسٹی کی ایمبولینس میں میڈیکل سٹاف کے ساتھ فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ علاج کے دوران یونیورسٹی انتظامیہ مسلسل طالبہ کے گھروالوں سے رابطے میں رہی۔ یونیورسٹی نے طالبہ کی جان بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ڈاکٹروں نے بھی اپنی طرف سے طالبہ کی جان بچانے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔