برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی نے 150 سال بعد تعلیم پر پابندی کا سامنا کرنے والی خواتین کو اسناد جاری کر دی ہیں۔
خواتین کے اس گروہ کو اُن مرد طلبہ کی جانب سے گریجویشن سے روکا گیا تھا جو یونیورسٹی میں ان کی موجودگی کی مزاحمت کر رہے تھے۔
’ایڈنبرا سیون‘ کے نام سے پہچان بنانے والے اس گروپ میں وہ خواتین شامل تھیں، جنہوں نے 1869 میں ایڈنبرا یونیورسٹی میں میڈیسن کی تعلیم کا آغاز کیا تھا۔ یہ گروپ اُن خواتین میں شامل تھا جو پہلی بار کسی بھی برطانوی یونیورسٹی میں داخلہ رہی تھیں۔
تاہم ان کو اپنے مرد ساتھیوں کی جانب سے صنفی امتیاز اور مزاحمت کا سامنا کرنا اور بالآخر ان کو ڈاکٹر بننے سے روک دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند ان اولین خواتین نے ادارے کی جانب سے اس صنفی امتیاز کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ان کی اس پابندی کے خلاف مہم میں چارلس ڈارون جیسی شخصیات بھی شامل ہو گئی تھیں۔
یونیورسٹی کے حالات اس وقت پُرتشدد ہو گئے تھے جب یہ گروپ اناٹومی کے امتحان کے لیے ہال میں پہنچا اور مرد طالب علموں نے ان پر گندگی پھینک دی۔ بعد میں اس واقعے کے حوالے سے یونیورسٹی میں ایک یادگار بھی بنائی گئی۔
ان خواتین کی جدوجہد بالآخر رنگ لے آئی اور 1877 میں قانون سازی کے ذریعے خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی گئی۔
قانون سازی کے دو دہائیوں بعد ایڈنبرا یونیورسٹی کے دروازے خواتین طلبہ کے لیے کھولے گئے مگر پھر بھی ان کو خود پڑھنا پڑتا تھا کیوں کہ یہاں کے مرد اساتذہ ان کو پڑھانے سے انکاری تھے۔
یونیورسٹی کے مک ایون ہال میں ہونے والی خصوصی تقریب میں ان سات خواتین مری اینڈرسن، ایملی بوویل، میٹلڈا چپلن، ہیلن ایوانز، صوفیا جیکس بلیک، ایڈٹھ پیچی اور ایزابیل تھورن کو میڈسن کی اعزازی بیچلر ڈگری سے نوازا گیا، جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔
یہ تقریب ملک بھر میں ہونے والی گریجویشن کی تقریبات میں ایک منفرد اضافہ ہے۔
After 150 years, the #edinburgh7 will today be awarded posthumous honorary degrees. The group were among the first women to be admitted to a UK university, but were prevented from graduating. @EdinUniMedicine students will collect degrees on their behalf https://t.co/aHOjf349nH
— The University of Edinburgh (@EdinburghUni) July 6, 2019
ایڈنبرا میڈیکل سکول سے سات طالبات کو ان آنجہانی طلبہ کی اعزازی اسناد دینے کے لیے چُنا گیا۔ یہ تقریب طویل انتظار کے بعد منعقد کی گئی جس کا مقصد ان کی جدوجہد اور مشکلات کا اعتراف کرنا تھا۔
سوفیا جیکس بلیک کی اعزازی سند وصول کرنے والی تیسرے سال کی میڈیکل کی طالبہ سیمرن پیا نے کہا: ’اپنے پیش روؤں کی اسناد وصول کرنا ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے۔ وہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔‘
ایڈنبرا یونیورسٹی کے پرنسپل اور وائس چانسلر پروفیسر پیٹر میتھیسن نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ ان خواتین کو وہ اعزاز مل گیا جس کی وہ صحیح معنوں میں حقدار تھی۔
پروفیسر پیٹر میتھیسن نے مزید کہا: ’ہمیں ان خواتین سے سیکھنا چاہیے اور ان سب کے لیے وسیع پیمانے پر رسائی کے دروازے کھول دینے چاہییں جن میں کامیابی کی قابلیت موجود ہے۔‘
© The Independent