کشمیر کے پاس کچھ نہیں رہا

جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ ملنا اب ناممکن لگ رہا ہے۔ اس خطے کی حیثیت اب ایک میونسپلٹی جیسی رہ گئی ہے۔

29 جون، 2024 کو پہلگام میں امرناتھ مندر کے باہر انڈین فوجی پہرہ دے رہے ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے عوام کو انتظامی اور مالیاتی طور پر بےاختیار کرنے کا ایک اور قدم اس وقت اُٹھایا گیا جب مرکزی حکومت نے تشکیل نو ایکٹ 2019 میں ترمیم کر کے لیفٹینٹ گورنر کو وسیع تر اختیارات دیے ہیں۔ 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

اس سے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ ملنا اب ناممکن لگ رہا ہے۔ اس خطے کی حیثیت اب ایک میونسپلٹی جیسی رہ گئی ہے۔

کئی برس پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکمران جماعت نے جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کا صفایا کرنا شروع کر دیا تھا۔ 
 
اس میں قومی دھارے کی مقامی سیاسی جماعتوں نے بھرپور ساتھ دیا تو قومی دھارے کے سربراہان اس خواب کو پال رہے تھے کہ وہ اس کے عوض ملک کشمیر کے شہنشاہ بنا دیے جائیں گے اور کسی رکاوٹ کے بغیر عوام پر سالہا سال تک حکمران رہیں گے۔
 
لیکن انہیں شاید اس بات کا علم نہیں تھا کہ 2019 کا اندرونی خودمختاری ختم کرنے کا فیصلہ نہ صرف جموں و کشمیر کے تنازعے کی ہیت بدلنے کے لیے کیا جا رہا تھا بلکہ روایتی سیاست دانوں  کی سات دہائیوں پر مشتمل سیاست کو ختم کرنے کی جانب پہلا قدم بھی تصور کیا جا رہا تھا۔
 
جہاں مرکزی دھارے کی وساطت سے آزادی پسند قیادت اور کارکنوں کا صفایا شروع کیا گیا وہیں مرکزی دھارے کی جماعتوں کے سربراہوں سمیت کارکنوں کو پہلی بار دھچکا لگا جب پانچ اگست، 2019 کو انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔
 
بار بار خود کو انڈین جتانے کی ان کی کوشش بھی ناکام ہوگئی اور آج بھی انہیں انڈین قرار دینے پر شکوک پائے جاتے ہیں۔
 
دہائیوں سے آزادی پسند اور پاکستان نواز ہزاروں نوجوان جیلوں میں اسیر ہیں اور ان کی خیر خبر پوچھنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔
 
اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کے بعد ہی بی جے پی کی کشمیر پالیسی کا خوب اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ تنظیم نو ایکٹ سے پرانی جماعتوں، پرانے لوگوں، پرانے نظام، پرانے اصول اور پرانے قانون کو زمین بوس کر کے نیا کشمیر بنانا چاہتی ہے جس میں تقریباً وہی نظام ہوگا جو آزادی سے پہلے ڈوگرہ راج کے دوران قائم تھا اور جس میں کشمیری مسلمان بے اختیار اور بے یارو مددگار تھے۔ 
 
آج کا نظام حکومت بالکل اس جیسا ہے۔ چند روز پہلے جب ڈوڈہ حملے کے بعد پولیس کے سربراہ آر آر سوین نے طلبہ کی ایک تقریب کے دوران یہ انکشاف کیا کہ پاکستان نواز بندوق برداروں کا مرکزی دھارے کی سیاست سے گہرا تعلق رہا ہے اور بسا اوقات سیاست دانوں نے انہیں انتخابی عمل میں استعمال بھی کیا تو انہوں نے پرانی سیاست کو ختم کرنے کا ایک طرح سے عندیہ دیا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ ’عسکریت پسندوں کے گھر جا کر ان سے ہمدردی کرنا اور پھر اپنی جماعت کے لیے حمایت حاصل کرنا مین سٹرم سیاست کی روایت رہی ہے۔‘
 
پولیس سربراہ کے اس بیان پر سیاسی حلقوں میں خاصا ہیجان شروع ہوا ہے۔ مرکزی دھارے کی جماعتیں ابھی ترمیم پر ردعمل کا سوچ ہی رہی تھیں جس کی بدولت لیفٹینٹ گورنر کو مکمل طور پر مالیاتی اور انتظامی فیصلے کرنے کا مجاز بنا دیا گیا ہے کہ فوراً مین سٹریم کو آزادی پسندوں اور بندوق برداروں کے ساتھ تعلقات کے الزام نے سیاسی حلقوں میں ایک کہرام مچا دیا ہے۔
 
ایک روزنامے کے ایڈیٹر کے مطابق ’بی جے پی جموں و کشمیر کے عوام کو ہمیشہ کے لیے مرکز کے تابع رکھنا چاہتی ہے، دوسرا پرانی سیاست کو ختم کرکے نئے فرنٹ کو متعارف کرانا چاہتی ہے جس میں وہ اب تک کامیاب نظر نہیں آرہی ہیں۔ لوگ یا سیاست دان کس طرح اپنے حقوق کا دفاع کریں جب عوام پر دہشت اور خوف بٹھا دی گئی ہو۔‘
 
لیکن بی جے پی کے رہنما ترون چوگ نے ترمیمی ایکٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار نے جموں و کشمیر میں عوام کی زندگی بہتر بنائی جو پہلے عبداللہ، مفتی اور گاندھی صرف اپنے خاندانوں کے لیے کیا کرتے تھے۔ 
 
اصل میں ایک بڑی آبادی نہ انتخابات چاہتی ہے اور نہ مقامی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری، 70 سال میں عوام کا استحصال ہوا ہے، نہ کوئی ترقی ہوئی اور نہ کسی کو روزگار ملا ہے بلکہ دو بڑی جماعتوں نے اپنے رشتہ داروں کی خوب خاطر مدارت کی ہے۔ 
 
اب جب بی جے پی نے یہاں کے عوام کو راحت پہنچائی تو ان پارٹیوں کے رہنما بے قرار نظر آرہے ہیں۔‘
 
پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی اس کے برعکس سوچتی ہیں۔ انہوں نے پولیس سربراہ کے بیان پر شدید برہمی ظاہر کی اور کہا کہ پچھلے پانچ سال میں بی جے پی نے جموں و کشمیر کو ہر سمت برباد کیا۔ 
 
جموں میں محال ہی کوئی حملہ ہوتا تھا مگر گذشتہ چند برسوں سے جموں اب بندوق برداروں کا گڑھ بن رہا ہے جس کی ذمہ داری بی جے پی پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے پولیس کی ناکامی پر مسٹر سوین کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا۔

نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے پولیس سربراہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا اگر انہوں نے سیاسی جماعتیں جوڑنے اور توڑنے کی بجائے امن و امان پر توجہ مرکوز کی ہوتی تو شاید حالات اتنے خراب نہیں ہوتے۔ 

فوجی اہلکار سرحدوں کی حفاظت کی بجائے سیاسی رہنما بنانے پر مقرر کیے گئے ہیں۔ دوسری جماعتوں نے بھی پولیس سربراہ کے بیان کو بے بنیاد بتایا۔

 

سول سوسائٹی کو بندوق برداروں کی حمایت یا ساتھ دینے کے پولیس سربراہ کے الزام میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے (سکیورٹی کی وجہ سے نام نہیں لیا) کہا کہ جموں و کشمیر ایک سیاسی تنازع ہے اور بی جے پی ایک جانب دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ مسئلہ سلجھ گیا ہے اور دوسری جانب جب خود ہی مین سٹریم، سول سوسائٹی یا اور گراؤنڈ ورکرز کو اس سے جوڑتی ہے تو وہ یہ بھول جاتی ہے کہ یہ تمام ادارے عوام کے اکثریتی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو انڈیا سے آزادی چاہتے ہیں بھلے ہی انہوں نے خاموشی اختیار کی ہو، تعلق بتا کر بی جے پی اپنے ہی بیان کو متنازع بنا رہی ہے۔
 
وزیر اعظم نریندر مودی نے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں عوام کے بڑے طبقے کی جانب سےووٹ ڈالنے کے عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ کشمیریوں نے بندوق کی بجائے ووٹ کو ترجیح دی اور جمہوریت پر اپنا یقین مستحکم کردیا ہے البتہ عوامی حلقے حالیہ ترمیم کے بعد کافی بدظن ہوگئے ہیں۔
 
مگر بقول تجزیہ نگار بیشتر ووٹروں نے مرکز کی سخت گیر پالیسی کے خلاف انجینیئر رشید اور نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا جبکہ بی جے پی کی حمایت یافتہ امیدواروں کو شکست دے دی گئی۔ 
 
اس کا ادراک بی جے پی کو ہے لیکن بیانیہ بنانے میں بی جے پی کا جواب نہیں۔ وہ ووٹوں کی تعداد پر اپنی کامیابی کا راگ الاپ رہی ہے۔
 
’اس میں کوئی شک نہیں کہ مین سٹریم کی پرانی جماعتوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر اگر بی جے پی نئے سرے سے کشمیر کو واپس شخصی راج میں دھکیلنا چاہتی ہے تو عنقریب مین سٹریم کی جماعتیں بھی سن اکیتیس میں پہنچ جائیں گی جہاں سے مہاراجہ کے خلاف آزادی کی جنگ شروع ہوئی تھی۔‘
 
ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے ایک سرکردہ رہنما نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے حقوق کے لیے مزید ایک صدی کے لیے لڑنا ہوگا تو ہم بھی اس جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔
 
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ