پنجاب پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کا کہنا ہے کہ خفیہ معلومات کی بنیاد پر ایک کارروائی کے دوران اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی اور القاعدہ کے سینیئر کمانڈر محمد امین الحق کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انہیں صوبہ پنجاب کے ضلع کی تحصیل سرائے عالمگیر سے گرفتار کیا گیا۔
ڈی آئی جی سی ٹی ڈی عثمان اکرم گوندل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو اور پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ اس طرح کا کوئی دہشت گرد آتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا دہشت گرد 2007 میں گرفتار ہوا تھا اور اس نے چار سال سزا کاٹی تھی، دشمن ملک کی ایجنسی نے اس پر بہت پروپیگینڈا کیا تھا۔
’یہ دہشت گرد اگست 2021 سے افغانستان میں دکھائی دیا تھا اور حال ہی میں پاکستان داخل ہوا، اس سطح کا دہشت گرد پاکستان میں کیا کر رہا تھا تفتیش کر رہے ہیں۔‘
اس سرکاری بیان پر اب تک القاعدہ یا کسی دوسری تنظیم کا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
عثمان گوندل کے بقول، ’اس کے پاس پاکستان کا آئی ڈی کارڈ بھی ہے۔ اس کے شناختی کارڈ پر لاہور اور ہری پور کے پتے درج ہیں۔ اس بارے میں بھی تفتیش کر رہے ہیں۔جو کیس اس کے خلاف رجسٹرڈ کیا گیا ہے وہ سزا اس کو بھگتنی پڑے گی۔ اسے گجرات سے گرفتار کیا گیا ہے۔‘
القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو 2 مئی 2011 کو امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد میں آپریشن کر کے مار دیا تھا۔
محمد امین الحق مشرقی افغانستان کے تورا بورا پہاڑوں میں القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن کی موجودگی کے دوران ان کے محافظ دستے میں شامل تھے۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق القاعدہ کے سینیئر جنگجو کی گرفتاری دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ ترجمان کے مطابق عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے امین الحق 1996 سے اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھی اور کئی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تھے۔
گرفتار امین الحق کا نام اقوام متحدہ کی عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ سی ٹی ڈی نے دہشت گرد کی گرفتاری کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
ترجمان سی ٹی دی نے بتایا کہ گرفتار شخص ملک میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے منصوبے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
سی ٹی ڈی نے کہا کہ کسی بھی متعلقہ معلومات کی صورت میں ہیلپ لائن 0800-11111 پر کال کی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان نے 2008 میں امین الحق کو گرفتار کیا اور 2011 میں عدم ثبوت کی بنیاد رہا کر دیا تھا۔
جریدے کے مطابق سابق ٹوئٹر پر شیئر کی گئی امین الحق کی ویڈیو، ’اس بات کا ثبوت ہے کہ القاعدہ کے کمانڈر اب خود کو اتنا محفوظ محسوس کرتے ہیں کہ وہ طالبان کے زیرِ تسلط افغانستان میں سرِ عام دکھائی دینے لگے ہیں۔‘
امین الحق کون ہیں؟
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ویب سائٹ کی جانب سے نامزد دہشت گردوں کی تازہ ترین فہرست کے مطابق امین الحق محمد کا تعلق افغانستان کے صوبہ ننگرہار سے ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔
انہیں 25 جنوری 2001 کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ ان پر اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی جانب سے یا اس کی حمایت میں ہتھیاروں اور متعلقہ سازوسامان کی فراہمی، فروخت یا منتقلی یا دیگر سرگرمیوں کی حمایت یا اس کے نام پر کارروائیوں یا سرگرمیوں کی مالی اعانت، منصوبہ بندی، سہولت کاری، تیاری یا ارتکاب میں حصہ لینے کا الزام تھا۔
چونسٹھ سالہ امین الحق انٹرپول کو بھی مطلوب ہیں۔
خدشات
حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستانی تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو القاعدہ کی افغانستان میں سرپرستی حاصل ہوسکتی ہے۔ وہ افغانستان سے متحرک ہیں اس لیے اگر کارروائیاں نہ روکیں تو ان کے ٹھکانوں پر بارڈر پار بھی حملے کر سکتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’امین الحق نامی مطلوب شخص کی پاکستان میں موجودگی اور گرفتاری سے پاکستان کے شبہات کو تقویت ملتی ہے۔ جن میں ٹی ٹی پی کی جانب سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں۔
ہماری فورسز مقابلہ تو بھر پور کر رہی ہیں لیکن ان کے ٹھکانے افغانستان میں ہونے کی وجہ سے انہیں جڑ سے ختم کرنا دشوار ہورہا ہے۔‘
اعجاز أعوان کے بقول، ’ان دنوں ملک میں دہشت گردی کی لہر تو موجود ہے۔ آئے روز حملے ہو رہے ہیں جس میں ہمارے جوان بھی شہید ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں کسی بھی مذہب، قومیت، علاقے سے تعلق رکھنے والا شخص جس کا ملک دشمنوں قوتوں سے تعلق ہو اس کی گرفتاری دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں مدد گار ثابت ہوگی۔‘
’جتنے لوگ دہشت گردی میں مطلوب ہیں جن میں ٹی ٹی پی کی قیادت بھی شامل ہے وہ سرحد کی دوسری طرف موجود ہیں۔ اس میں طالبان حکومت ان کو تحفظ دے رہی یا نہیں ان کی معاونت کر رہی ہے یا نہیں یا غیر ملکی ایجنسیاں ان کو مدد فراہم کر رہی ہیں اس پر پاکستان کو شدید تحفظات ہیں۔ ان خدشات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پاکستان نے ماضی میں بھی معلومات کی بنیاد پر ان کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے اب بھی اطلاعات ایسی ہی موصول ہورہی ہیں۔‘
بائیڈن انتظامیہ کے شکوک شبہات
چھ موجودہ اور سابق امریکی عہدیداروں نے کچھ عرصہ قبل رائٹرزکو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’امریکی فورسز کی عدم موجودگی کے بارے میں افغانستان میں القاعدہ اور دیگر شدت پسندوں کی واپسی کو روکنے کی واشنگٹن کی صلاحیت کے بارے میں صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ میں شکوک و شبہات بڑھنا شروع ہو گئے ہیں۔
قابل اعتماد شراکت داروں کی روانگی، شدت پسندوں کی جیلوں سے رہائی اور طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد خطرہ ہے کہ القاعدہ افغانستان کی سرزمین پر دوبارہ سرگرم ہو سکتی ہے۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے جاری 2021 کی ایک رپورٹ میں بھی تصدیق کی جاچکی ہے کہ القاعدہ کی سینیر قیادت اب بھی سیکڑوں مسلح عناصر کے ساتھ افغانستان کے اندر موجود ہے۔
وزیرستان حملہ
ادھر جنوبی وزیرستان کے صدر قمام وانا میں پولیس کا کہنا ہے کہ شہر کے امن چوک میں گاڑی کے قریب دھماکے سے دو افراد کی موت اور چار زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس کے مطابق موٹر سائیکل میں نصب بارودی مواد سے سابق امن کمیٹی کے رکن عین اللہ کی گاڑی کونشانہ بنایا گیا۔
مرنے والے دونوں افراد راہ گیر تھے جبکہ گاڑی میں سوار چار افراد بھی زخمی ہوئے۔