اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک مانیٹرنگ رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) القاعدہ کے ساتھ انضمام کی کوشش کر سکتی ہے، جس کا مقصد جنوبی ایشیا میں سرگرم تمام عسکریت پسند گروہوں کو پناہ دینے کی غرض سے ایک چھتری فراہم کرنا ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے افغان طالبان کے ساتھ روابط ہیں۔
تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور افغان طالبان نے اس رپورٹ پر الگ الگ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔
ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ تحریک طالبان پاکستان ملکی اور قومی سطح کی خود مختار تحریک ہے، جو کسی بھی تنظیم یا ملک کے ساتھ تعلقات کی محتاج نہیں۔
’اس لیے ہم اقوام متحدہ سے بھی کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے معاملات کو پاکستان کی تعصب کی عینک سے نہ دیکھے بلکہ حقیقت کا مشاہدہ کرے۔‘
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعے کو ایک ٹویٹ میں کہا: ’اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ درست نہیں۔ القاعدہ کی افغانستان میں کوئی موجودگی نہیں۔‘
پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا: ’کچھ (اقوام متحدہ) کے رکن ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ٹی ٹی پی ایک چھتری فراہم کر سکتی ہے جس کے تحت بہت سے غیر ملکی گروپ کام کرتے ہیں، یا یہاں تک کہ متحد ہو کر طالبان کے کنٹرول کی کوششوں سے گریز کرتے ہیں۔‘
رپورٹ میں پاکستان کی اس شکایت کی تائید کی گئی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے طالبان کے قبضے کے بعد سے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ’ایک رکن ریاست نے (القاعدہ) اور ٹی ٹی پی کے انضمام کے امکان کو نوٹ کیا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ (القاعدہ) پاکستان کے اندر بڑھتے ہوئے حملے کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کو رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔‘
دستاویز کے مطابق: ’افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مختلف دہشت گرد گروپوں کے زیر انتظام تربیتی کیمپوں کو کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی استعمال کر رہے ہیں۔
’کئی منقسم گروپوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد کے بعد اور طالبان کی طرف سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنے علاقے پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔‘
اقوام متحدہ کے مانیٹرز نے نوٹ کیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی توجہ سرحدی علاقوں میں اعلیٰ اہمیت کے اہداف اور شہری علاقوں میں نرم اہداف پر مرکوز رہی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’ٹی ٹی پی کی صلاحیت کا اندازہ اس کے عزائم سے مماثل نہ ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے، اس لیے کہ اس کا علاقے پر کنٹرول نہیں اور قبائلی علاقوں میں اس کی مقبولیت کا بھی فقدان ہے۔‘
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے جون میں رپورٹ کیا تھا کہ طالبان حکومت پر پاکستان کے دباؤ میں اس ٹی ٹی پی کو لگام دینے کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر کالعدم تنظیم کے بعض عناصر کو سرحدی علاقوں سے دور منتقل کر دیا گیا۔
رکن ممالک نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بتایا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کا افغانستان میں اپنے آپریٹنگ بیس کو برقرار رکھنا علاقائی خطرہ بن سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ کی کمیٹی، جس نے 25 جولائی کو سلامتی کونسل میں اپنی رپورٹ پیش کی، اس بات پر روشنی ڈالی کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح دیگر شدت پسند تنظیمیں جنگ زدہ ملک میں کام کرنے کے لیے ٹی ٹی پی کوور کا استعمال کر رہی تھیں۔
رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ ’القاعدہ کے اراکین اور اس سے منسلک گروہوں بشمول ٹی ٹی پی، اور آئی ایس خراسان کے درمیان فرق بعض اوقات واضح طور پر نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات افراد خود کو ایک سے زیادہ گروہوں کے ساتھ شناخت کرتے ہیں۔‘
رپورٹ نے مزید کہا: ’یہ رپورٹنگ بڑھتی جا رہی ہے کہ دوسرے منظور شدہ دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی کی حمایت افغان طالبان کے کنٹرول سے بچنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کی کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ ’طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات اب بھی قریبی اور علامتی ہیں۔ زیادہ تر حصے میں، القاعدہ افغانستان میں خفیہ طور پر اس بیانیے کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہے کہ طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تعمیل کرتے ہیں۔‘
افغانستان کے طالبان حکمرانوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔