پارلیمان اور کابینہ کی نجکاری کر دی جائے؟

 عمران خان کی حکومت تھی، روپے کی قدر گر گئی، صاحب نے ادائے بے نیازی سے کہا ’میں کیا کروں ، مجھے تو خود ٹی وی سے پتا چلا ہے کہ روپے کی قدر گر گئی ہے۔‘

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت 13 مارچ 2024 کو  اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس ہوا (وزیراعظم آفس)

مختلف اداروں کو ان کی افادیت اور کارکردگی کے حوالے سے جانچا جا رہا ہے کہ انہیں موجودہ شکل میں باقی رکھا جائے یا ان کی نجکاری کر دی جائے۔  

سوال یہ ہے کہ اسی اصول کا اطلاق کرتے ہوئے کیا پارلیمان اور وفاقی کابینہ کی نجکاری پر بھی غور کیا جا سکتا ہے؟

پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو حکومت پر تنقید ہوتی ہے۔ حکومت نے اس مشکل کا حل نکال لیا ہے۔ خبر ہے کہ وزیر اعظم نے پٹرول کی قیمتوں کے تعین میں حکومتی اختیار ختم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔

اب پٹرول مہنگا ہو گا تو حکومت شان بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہہ دیا کرے گی کہ یہ مہنگائی ہم نے تو نہیں کی ۔ یہ تو متعلقہ کمپنیوں نے کی ہے۔

آپ حکومت کی بصیرت دیکھیے، یعنی کیا وہ واقعی یہ سمجھتی ہے کہ اس ہنر کاری سے وہ عوام کی نظر میں سرخرو ہو جائے گی؟

سوال یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت اگر عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے ذمہ داری سے فرار اختیار کرتی ہے اور عوام کو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتی ہے تو اس حکومت کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟

یہی معاملہ بجلی کا ہے۔ آئی پی پیز نے کیپیسیٹی چارجز کے نام پر عوام کی کمر لال اور ہری کر دی ہے لیکن حکومت لا تعلق بیٹھی ہے۔

عوام کے ساتھ جو ہو سو ہو، حکومت نے ان کمپنیوں کو مطلوبہ رقم دینی ہی دینی ہے۔ لوگ اصلاح احوال کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومت شان بے نیازی سے کہتی ہے: ’مجبور ہیں، اور کوئی راستہ نہیں۔‘

حکومت بجٹ بناتی ہے تو عوام سے کہا جاتا ہے ہم تو آپ کے غم میں بہت دبلے ہو رہے ہیں لیکن کیا کریں آئی ایم ایف نہیں مان رہی۔ ہم مجبور ہیں۔

بجٹ پاس ہو جاتا ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا اضافی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو ایک روز وزیر اعظم خطاب فرماتے ہیں اور کہتے ہیں: ’تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس لگا دو، آئی فون پر ٹیکس لگا دو، بجلی پر ٹیکس لگا دو، کیا یہ طریقہ ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لوگ اپنے وزیر اعظم کو سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ اپنی ہی حکومت میں خود ہی یہ فیصلے کرنے کے بعد وزیر اعظم اب کس سے یہ شکوے کر رہے ہیں۔

 عمران خان کی حکومت تھی، روپے کی قدر گر گئی، صاحب نے ادائے بے نیازی سے کہا،  ’میں کیا کروں ، مجھے تو خود ٹی وی سے پتا چلا ہے کہ روپے کی قدر گر گئی ہے۔‘

تنقید بڑھی تو کہا گیا ہم نے روپے کو مارکیٹ کے رحم و  کرم پر چھوڑ دیا ہے، اب اس کی قدر کا تعین مارکیٹ کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اگر ریاست کی کرنسی کی تباہی سے ہی لاتعلق ہے تو اس حکومت کی افادیت کیا ہے۔

خان صاحب ہی کے دور حکومت میں کسی نے سڑک بنانے کا مطالبہ کیا تو ارشاد ہوا ’وزیر اعظم سڑکیں بنانے کے لیے نہیں آتا۔‘ 

قوم کی مزید تربیت فرماتے ہوئے وہ بار بار یہ بصیرت آموز شرح بیان فرماتے رہتے کہ میں آلو، بھنڈی، چینی، کریلے اور آٹے کی قیمتیں سستی کرنے نہیں آیا، میں تو قوم کی تعمیر کرنے آیا ہوں۔

کوئی حالات کی اونر شپ لینے کو تیار نہیں۔ حکومت کے سربراہ وزیر اعظم ہیں لیکن وہ بھی سوال پوچھتے پھرتے ہیں کہ ٹیکس بڑھا دیے بجلی مہنگی کر دی کیا ایسا ہوتا ہے؟ نواز شریف ن لیگ کے سربراہ ہیں مگر وہ بھی سامنے آ کر اس حکومت کے فیصلوں کی اونرشپ لینے کو تیار نہیں۔

ایک عجیب سی لاتعلقی ہے۔ سیاست کی دنیا میں یہ ایک نیا اور پریشان کن تجربہ ہے۔

سوال اب یہ ہے کہ اگر حکومت اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر سکتی، اگر یہ ان سے فرار اختیار کرتی ہے ، اگر اس کے پاس عوام کی محرومیوں کے حل کے لیے کوئی فارمولا نہیں ہے تو پھر ان کا جواز کیا ہے؟

اسی طرح اگر پارلیمان اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتی، ملک کو صدیوں پرانے قوانین سے چلایا جاتا ہے، قانون سازی آرڈی نینسوں کے ذریعے ہو جاتی ہے، پالیسیاں کہیں اور طے ہو جاتی ہیں، تو اس پارلیمان کے ایک دن کے اجلاس پر قریب چھ کروڑ روپے خرچ کرنا کہاں کی معقولیت ہے؟

کیوں نہ دیگر اداروں کی طرح پارلیمان اور کابینہ کی ہوش ربا مراعات اور مایوس کن کارکردگی کا بھی  تقابل کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کیا جائے۔ یہ ختم تو بھلے نہ کی جائیں کہ برائے وزن بیت ہی سہی، جمہوریت ہوتی تو غنیمت اور بہترین انتقام ہی ہے۔ لیکن اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ ان کی بھی نجکاری کر دی جائے۔ قومی خزانے کا تو کچھ بھلا ہو۔

پس تحریر: خبر ہے کہ وفاقی کابینہ نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کر لی ( یعنی جارحیت کے صرف 10 ماہ بعد ہی قرارداد منظور کر لی) ایسی فعال اور متحرک کابینہ کی نجکاری میں غیر معمولی بولی کے امکان کی نفی بلاشبہ جمہوریت دشمن رویہ تصور ہو گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر