برطانوی اور پاکستانی ارکانِ پارلیمان کے اختیارات و مراعات میں کیا فرق ہے؟

پاکستان کے اراکین اسمبلی کم تنخواہوں کا رونا روتے رہتے ہیں، لیکن دوسری جانب انہیں جو اختیارات حاصل ہیں اس کا برطانوی ایم پی تصور بھی نہیں کر سکتے۔

27 اپریل 2023 کی اس تصویر میں لندن میں برٹش پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ جیمز کلیورلی خطاب کرتے ہوئے (اے ایف پی/ UK Parliament)

برطانیہ کے دارالعوام کو دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریتوں میں سب سے قدیم ایوان سمجھا جاتا ہے، جس کے انتخابات چار جولائی کو ہوئے اور نو جولائی کو اس کے 650 اراکین اپنا حلف اٹھائیں گے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کی لوک سبھا، امریکہ کی ایوان نمائندگان اور پاکستان کی قومی اسمبلی کے برعکس برطانوی دارالعوام بہت زیادہ طاقتور ہے اور اس کے اراکین کو بھی کئی اختیارات و مراعات حاصل ہیں، جو پاکستان کے اراکین قومی اسمبلی کو ملنے والے مراعات اور اختیارات سے مختلف ہیں۔

تنخواہیں

 ایک برطانوی رکنِ پارلیمان کو سالانہ 91 ہزار 346 پاؤنڈ کی بنیادی تنخواہ ملتی ہے جبکہ وزیروں کو وزارت کے لیے بھی ایک تنخواہ دی جاتی ہے۔

اراکین کو اپنی پارلیمانی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے چار مختلف بجٹس سے پیسے دیے جاتے ہیں، جس میں سب سے بڑا بجٹ سٹافنگ بجٹ ہوتا ہے۔

2020،21 کے مالی سال میں اس بجٹ کی مد میں لندن سے باہر کے ایم پیز کو فی کس ایک لاکھ 77 ہزار 550 پاؤنڈز سالانہ دیے گئے، جبکہ لندن سے تعلق رکھنے والے اراکین کے لیے یہ بجٹ ایک لاکھ 88 ہزار 860 پاونڈز تھا۔

برطانوی حلقے اور ایم پیز کا عملہ

برطانیہ کے آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس کے مطابق ایک حلقے میں رائے دہندگان یا ووٹروں کی تعداد 56 ہزار سے لے کر 72 ہزار کے درمیان ہوتی ہے۔

ایک رکن کو پارلیمانی امور کے علاوہ اپنے حلقے کے حوالے سے بھی کام کرنے ہوتے ہیں جس کے لیے وہ اوسطاً چار سٹاف کے اراکین کو رکھتا ہے اور ان کو رکھنے کا اختیار ایک رکن کا صوابدیدی ہوتا ہے۔

ایک رکن ممکنہ طور پر اپنے سٹاف میں پارلیمنٹری اسسٹنٹس یا ریسرچر بھی رکھتے ہیں جو تقریر، سوال و جواب اور دوسرے پارلیمانی امور میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

رکن کو دفتر چلانے کی مدد میں  بھی پیسے دیے جاتے ہیں۔ مالی سال 2020،21 میں لندن سے تعلق رکھنے والے ایم پی کو 28 ہزار آٹھ سو پاونڈز فی کس سالانہ دیے گئے جب کہ اس سے باہر والے کو 25 ہزار نو سو دس پاونڈز۔

رہائشی اخراجات

دارالعوام کے 554 اراکین کا تعلق لندن کے باہر سے ہے۔ اس لیے اگر وہ لندن سے باہر رہائش اختیار کرتے ہیں، تو انہیں 16120 پاؤنڈز فی کس سالانہ دیے جاتے ہیں اور لندن میں 23 ہزار 10 پاؤنڈز فی کس سالانہ دیے جاتے ہیں۔

 اراکین کو سفری اخراجات، سکیورٹی اور معذوری کے حوالے سے بھی بجٹ دیا جاتا ہے۔

مراعات پر تنقید اور دفاع

کئی ناقدین اراکین کی مراعا ت کو نامناسب سمجھتے ہیں۔ لندن سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار عاصم علی شاہ کا کہنا ہے کہ اراکین کی تنخواہیں اور مراعات ایک عام برطانوی ورکنگ کلاس آدمی کے برابر ہونی چاہیے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسا ہونے کی صورت میں انہیں عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ ہو گا۔ گذشتہ 10 برسوں میں نہ صرف بچوں بلکہ دوسرے معاشرے کے طبقات میں بھی غربت بڑھی ہے۔ فوڈ بینکوں اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔‘

عاصم علی شاہ کے مطابق: ’گذشتہ تین عشروں میں ایم پیز کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اتنی مراعات حاصل کرنے کے باوجود بھی یہ عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے لابیز اور کمپنیوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔‘

تاہم برمنگم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن دارالعوام خالد محمود اس تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔ خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر یہی ایم پیز پرائیویٹ سیکٹر میں کام کریں، تو ایک لاکھ سے دو لاکھ پاؤنڈز سالانہ کمائیں۔

’ایم پیز کو ایوان اور حلقوں میں بہت ساری ذمہ دارایاں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ جس کے لیے ان کی مراعات اور بہتر تنخواہ بہت ضروری ہے۔‘

پاکستانی اراکین قومی اسمبلی کا دکھڑا

 پاکستان کے اراکین اسمبلی دوسری طرف اپنی کم تنخواہوں اور نہ ہونے کے برابر مراعات کا رونا پیٹتے ہیں۔ ان کے خیال میں برطانوی دارالعوام کے مقابلے میں پاکستانی اراکین کی سہولیات بہت کم ہیں۔

رکن قومی اسمبلی معین عامر پیرزادہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے ایک لاکھ 87 ہزار روپے ماہانہ ملتے ہیں، جس میں ٹیلی فون اور موبائل کا خرچہ بھی شامل ہے۔

 

’ایوان اور کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ساڑھے چار ہزار کے قریب  ڈیلی الاؤنس ملتا ہے۔ اندرون ملک فضائی سفر کے لیے 25 ٹکٹس سالانہ ملتے ہیں جبکہ رہائش کی مد میں بھی ہماری تنخواہ سے پیسے کاٹے جاتے ہیں۔‘

معین عامر پیرزادہ کے مطابق اراکین کے لیے سٹاف، دفتر، پینشن اور پلاٹ وغیرہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی پھلین بلوچ کا کہنا ہے کہ تنخواہ میں ان کا بھی گزارا مشکل ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجھے سکیورٹی کے لیے انہوں نے گارڈز دیے ہیں جن کو میں کھانا اپنی جیب سے کھلاتا ہوں۔

’بلوچستان میں اگر مجھے رکنا پڑے تو ہوٹل کا کرایہ مجھے خود دینا پڑتا ہے۔ اپنے حلقے تک جانے کے لیے سینکڑوں کلومیٹر کا راستہ طے کرنا پڑتا ہے اور اس کے بھی اخراجات میرے ذمے ہوتے ہیں۔‘

ترقیاتی بجٹ

 ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اراکین اسمبلی کی مراعات اور تنخواہیں کم ہیں لیکن ترقیاتی بجٹ کے نام پر ان کو بے تحاشہ پیسے دیے جاتے ہیں۔

رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تحریک انصاف کے تین بجٹس میں ہر سال اراکین اسمبلی کو 15 کروڑ فی رکن دیے گئے۔

’لیکن یہ پیسہ براہ راست اراکین اسمبلی کو نہیں ملتا۔ ہم پروجیکٹس یا ضروریات کی نشاندہی کرتے ہیں اور متعلقہ ادارے ان پروجیکٹس کو بناتے ہیں۔‘

 ایک سابق رکن قومی اسمبلی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ اس بات کا اعتراف کیا کہ اراکین قومی اسمبلی اور متعلقہ اداروں میں خاموش معاہدہ ہوتا ہے جو ٹھیکے دار سے کمیشن کے نام پر کروڑوں روپیہ وصول کرتے ہیں۔

اس رکن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر ایک پروجیکٹ 50 کروڑ کا ہے تو اس میں سے 10 سے 15 کروڑ رکن اسمبلی لے جاتے ہیں۔‘

اراکین دارالعوام اور ترقیاتی بجٹ

پاکستان کے برعکس دارالعوام کے اراکین کو کسی بھی طرح کا ترقیاتی بجٹ نہیں ملتا۔ خالد محمود کا کہنا ہے کہ ترقیاتی بجٹ اور ترقیاتی کام کرانے کی ذمہ داری علاقائی کونسل یا ریجنل کونسل کی ہوتی ہے۔

’ہم ان کا احتساب کر سکتے ہیں اور ان پر نظر رکھ سکتے ہیں لیکن ہمیں براہ راست کوئی ترقیاتی بجٹ نہیں ملتا۔ اگر کوئی ترقیاتی پراجیکٹ مرکزی حکومت کا ہو تو ہم اس میں اپنی رائے یا مشورہ ضرور دے سکتے ہیں لیکن ہمارا بجٹ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘

لندن کے علاقے لیوشیم سے تعلق رکھنے والے کونسلر توصیف انور کا کہنا ہے کہ روڈ بنانا یا نالی صاف کرنا برطانیہ میں دارالعوام کے اراکین کی ذمہ داری نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’برطانیہ میں مقامی حکومتوں کو بہت زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ بچوں اور بڑوں کی سماجی دیکھ بھال، سکولوں کا انتظام، گلیوں کی صفائی، مقامی کاروبار، ماحول اور منصوبہ بندی سمیت کئی شعبے مقامی حکومتوں کے ماتحت ہوتے ہیں۔

’جبکہ مقامی حکومتیں پولیس اور این ایچ ایس کے حوالے سے بھی سٹیک ہولڈرز کے طور پر کام کرتی ہیں۔‘

لارڈ قربان حسین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اراکین اسمبلی کا بنیادی فرض قانون سازی کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ترقیاتی کاموں سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ایوان میں بحث کرنا، مسائل کی نشاندہی کرنا، خارجہ امور پہ بات کرنا اور پالیسی بنانا ان کی ذمہ داری ہے۔‘

اراکین اور تھانہ کچہری

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں اراکین قومی اسمبلی تھانے کچہری کی سیاست کرتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اپنے حلقے پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

لیکن اس کے برعکس خالد محمود کہتے ہیں کہ قانونی طور پر کوئی رکن دارالعوام پولیس والوں کو فون کر کر کسی بھی طرح کی رعایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ