ہنی ٹریپ: ’ٹک ٹاک پر تو نواب لگتا ہے لیکن بینک اکاؤنٹ بھی نہیں‘

پولیس کا کہنا ہے کہ اس سال تقریباً 40 سے 50 افراد ہنی اور منی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں۔

بچپن سے فلموں میں کام کرنے کا شوق رکھنے والے بہاولپور کے ایک محنت کش علی رضا (فرضی نام) کو، جو سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا مشغلہ رکھتے ہیں، گذشتہ ماہ ایک خاتون نے فون پر مبینہ طور پر محبت کا جھانسا دے کر کچے کے ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا۔

غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے 45 سالہ محنت کش علی کے مطابق ان کا فلموں میں کام کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، اس لیے وہ مہنگے سوٹ پہنے، سٹائل بنا کر سوشل میڈیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔

ویسے تو ہنی ٹریپ کی تاریخ بہت پرانی ہے، جسے مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں بھی ایک دوسرے کے ایجنٹوں کے خلاف ہتھیار کے طور استمال کرتی رہی ہیں، لیکن اِن دنوں یہ معاملہ پاکستان میں بھی عام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، جس سے ملک کے اکثر علاقوں میں لوگوں کو جھانسا دیا جا رہا ہے۔

جنوبی پنجابی اور اندرون سندھ میں کچے کے ڈاکوؤں نے بھی ہنی ٹریپ اور منی ٹریپ کے ذریعے وارداتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

پولیس کے مطابق ملک بھر سے تعلق رکھنے والے 40 سے 50 افراد گذشتہ ایک سال میں ہنی یا منی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں۔

لاہور میں رواں ہفتے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمر کو بھی ایک خاتون نے فون کر کے اغوا کروایا اور پیسے ہتھائے گئے۔

پولیس نے اس واقعے میں فون کرنے والے خاتون اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر کے چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے۔

کچے کے قریبی علاقوں گھوٹکی، کشمور، رحیم یار خان، صادق آباد کے علاوہ کراچی، فیصل آباد، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور کے شہری بھی ایسی وارداتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔

لاہور میں آرگنائزڈ کرائم سیل کے سپرنٹینڈنٹ پولیس (ایس پی) آفتاب پھلروان کے بقول: ’ہنی یا منی ٹریپ کی وارداتوں میں ملوث ابھی تک شہری علاقوں میں کوئی منظم گینگ نہیں، البتہ کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کی اس طرح کی وارداتیں خطرناک حد تک بڑھی ہیں۔ ان کے خاتمے کے لیے ایئر سٹرائیک ناگزیر ہو چکی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سندھ اور پنجاب پولیس نے کچے کے راستوں پر ناکے لگا رکھے ہیں اور وہاں جانے والوں کو خبردار کر کے بچایا جا رہا ہے۔‘

سندھ پولیس نے رواں ماہ کراچی کے رہائشی بزرگ شہری ضیا الحسن جعفری کو فون پر لڑکی سے معاملات طے پانے کے بعد شادی کے لیے کشمور جاتے ہوئے ناکے پر روک کر واردات سے بچا لیا۔

ہنی اور منی ٹریپ کا طریقہ واردات

بہاول پور کے علی نے بتایا کہ دو ماہ پہلے پانچ تاریخ کو وہ اپنی ورک شاپ پر کام میں مصروف تھے، جب موبائل پر بار بار کال آنے لگی۔

’نامعلوم نمبر سے آنے والی کال اٹینڈ کی تو دوسری طرف سے ایک لڑکی کی دل کش آواز سنائی دی۔ خاتون نے اپنا نام علیزے شاہ بتایا اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز سے متاثر ہونے پر دوستی کی آفر کی۔ میں نے دیگر ساتھیوں سے الگ ہو کر اس سے کافی دیر بات کی۔

’فون پر باتوں کا یہ شروع ہونے والا سلسلہ دن رات کے معمولات میں بدل گیا اور پیار و محبت کی باتیں شروع ہو گئیں۔

ایک ہفتے کی مسلسل گفتگو کے دوران ایک دوسرے سے متعلق معلومات کا تبادلہ ہوا تو میں نے بھی خود کو غریب محنت کش ظاہر نہیں کیا، جب کہ اس لڑکی نے خود کو سندھ کے ایک وڈیرے کی بیٹی بتایا اور شادی کی آفر کر دی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے گھوٹکی بلانے پر اصرار کیا جانے لگا لیکن یہ خواہش میرے مالی حالات نے پوری نہ ہونے دی۔‘

علی نے بتایا کہ لڑکی جلد از جلد شادی کرنے پر زور دے رہی تھی ورنہ اس کا ’والد کسی دوسرے سے اس کی شادی کروانے لگا تھا۔‘

’جب میں نے وقت مانگا تو علیزے خود بہاولپور مجھے لینے آ گئی۔ میں نے کسی کو بتائے بغیر دن 11 بجے میلاد چوک میں اس سے ملاقات کی اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ میرے پاس شاپر میں دو سوٹ بھی تھے۔

’لڑکی انتہائی خوبرو اور مہنگے لباس میں تھی اور ساتھ آنے والے دو افراد کو اپنا ملازم بتایا۔‘

انہوں نے کہا: ’مجھے گاڑی میں پینے کے لیے جوس دیا گیا، جس کے بعد مجھے ہوش نہ رہا۔ تین گھنٹے بعد ہوش آیا تو میں ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا اور میرے آگے پیچھے دو مسلح افراد بیٹھے تھے۔‘

علی رضا کا کہنا تھا: ’مجھے دریا سے گزار کر ایک ڈیرے پر لے جایا گیا جہاں اور بھی کئی مسلح افراد موجود تھے۔ مجھے باندھ کر تشدد کیا گیا اور ویڈیو بنا کر میرے گھر والوں کو بھجوائی گئی، ایک کروڑ روپے کے تاوان کے مطالبے کے ساتھ۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’جب انہیں معلوم ہوا کہ میرے گھریلو حالات تو بہت خراب ہیں تو انہوں نے مزید تشدد کیا اور طعنے دیتے رہے کہ ٹک ٹاک پر تو نواب لگتا ہے۔ فقرا جس کا بینک اکاؤنٹ بھی نہیں۔‘

علی پر تشدد کی ویڈیوز ملنے پر اس کے گھر والوں نے رشتہ داروں سے ادھار لے کر پانچ لاکھ روپے ادا کیے، جس کے بعد انہیں بری حالت میں صادق آباد روڑ پر پھینک دیا گیا۔

آزادی ملنے کے بعد علی رضا نے پولیس تھانے میں رپورٹ تو درج کروا دی، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہو سکی۔

سندھ پولیس کے ایس ایس پی احسان اللہ چانڈیو کے بقول: ’ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کے فروغ کے بعد ڈاکو بھی اس ٹیکنالوجی کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔

’سندھ میں ضلع گھوٹکی سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو بعد میں شکارپور اور کشمور کے اضلاع تک پہنچ گیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہنی ٹریپ کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوؤں نے کی تھی، جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے۔

’کامیاب کارروائیوں کے بعد ڈاکوؤں نے باقاعدہ خواتین کو ان مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

’فون پر بات کرنے کے لیے ڈاکوؤں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں لانے کے لیے مختلف طریقے اپناتی ہیں۔

’اگر کوئی سندھی بولنے والا ان کے جال میں آئے گا تو لڑکی سندھی زبان میں بات کرے گی اور اردو اور پشتو میں بات کرنے والوں سے انہی زبانوں میں بات کی جائے گی۔‘

وارداتیں روکنے کے اقدامات

ایس پی آفتاب پھلروان نے بتایا کہ ’شہری علاقوں میں ہنی ٹریپ جو لڑکیوں کو استعمال کر کے جال بچھایا جاتا ہے اور منی ٹریپ جو سستی اشیا یا انعام دینے کی لالچ دے کر کیا جاتا ہے، کم ہیں۔

’لیکن کچے کے ڈاکوؤں نے منظم انداز میں یہ کام شروع کر رکھا ہے، جس میں سادہ لوح شہری جن میں نوجوان اور بوڑھے بھی شامل ہیں آسانی سے ٹریپ ہو جاتے ہیں۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اس حوالے سے بھرپور کارروائیاں کر رہی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ ٹریپ ہونے والے بیشتر افراد بدنامی کے ڈر سے پولیس کو اطلاع دینے سے گریز کرتے ہیں۔

ایس پی آفتاب کے مطابق: ’اس حوالے سے کچے کے ڈاکووں کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سندھ اور پنجاب پولیس آپریشن تو کر رہی ہیں لیکن ڈاکو دریا میں جزیروں پر چھپ جاتے ہیں۔

’ان کے خلاف فضائی حملوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر آپریشن کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمیں ایف آئی اے سے سائبر کرائم کا اختیار لے کر دیا جا رہا ہے، جس کے بعد ایسے پیجز بھی بلاک کریں گے جو ہنی یا منی ٹریپ کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

’ایسے ٹریپ کرنے کا تو کوئی قانون نہیں البتہ اغوا، ڈکیتی یا اغوا برائے تاوان جیسی سخت دفعات کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔‘

چیف ایگزیکٹیو آفیسر محکمہ صحت ملتان ڈاکٹر فیصل قیصرانی بھی حالیہ دنوں میں مبینہ طور پر ہنی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں۔

انہوں کی تھانہ نیو ملتان میں مقدمہ درج کروایا جس کے مطابق ’20 جولائی کو امبر نامی خاتون سے الفلاح مارکیٹ میں ملاقات ہوئی، جو تین ساتھیوں کے ہمراہ میری گاڑی میں بیٹھ گئیں۔

’ملزمان نے بوتل پلا کر مجھے بے ہوش کیا اور تین گھنٹے بعد ہوش آنے پر حسن آباد کے علاقے میں موجود تھا۔

’لیکن میری گاڑی میں موجود 90 ہزار روپے، 40 ہزار کی عینک، گھڑی اور شناختی کارڈ غائب تھے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمہ نے سی ای او ہیلتھ سے نازیبا تصاویر کے عوض 50 لاکھ روپے طلب کیے اور ملزمان نے ڈاکٹر فیصل قیصرانی سے 23 جولائی کو پانچ لاکھ روپے بھتا وصول کیا۔

پولیس کے مطابق ملزمان میں پلوشہ عرف امبر، محمد آصف، مظہر عباس اور محمد سجاد سمیت چھ ملزمان شامل ہیں اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے مزید قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔

اسی طرح راول پنڈی کے تھانہ آر اے بازار میں درج مقدمے کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں نے لڑکی کے ذریعے رواں سال مارچ میں واپڈا کے 70 سالہ سابق افسر آغا سہیل خان کو ہنی ٹریپ کیا۔

انہیں ضلع کشمور کے کچے کے علاقے لے جایا گیا اور دو کروڑ روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا، جو نہ ملنے پر ان کی لاش کشمور شہر سے ملی۔

فیصل آباد کے تاجر اور بہاولپور سے ریسکیو اہلکار سمیت کئی افراد کی ویڈیوز بھی کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں اغوا ہونے کے بعد تشدد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان