لاہور میں پولیس نے اتوار کو بتایا کہ ڈراما نگار خلیل الرحمان قمر نے اپنے اغوا اور ڈکیتی کا مقدمہ درج کروایا ہے، جس کی تفتیش پولیس کے آرگنائزڈ کرائم یونٹ نے شروع کر دی۔
خلیل الرحمان قمر نے 15 جولائی کو اپنے ساتھ ہونے والی ڈکیتی اور اغوا کی واردات کی ایف آئی آر 21 جولائی کو لاہور کے تھانہ سندر میں درج کروائی، جس کے مطابق ایک خاتون نے انہیں ڈراما پروڈیوس کرنے کی پیشکش کے بہانے بلایا لیکن وہاں پر مسلح افراد نے ان سے رقم ہتیانے کے علاوہ اغوا کیا اور فون سے ڈیٹا بھی کاپی کر لیا۔
ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم یونٹ عمران کشور کے مطابق ’خلیل الرحمان قمر نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر فوری ایف آئی آر درج نہیں کروائی لیکن گذشتہ روز انہوں نے تھانہ سندر میں درخواست دی جس پر ان کی مدعیت میں اغوا اور ڈکیتی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔‘
ایف آئی آر میں خلیل الرحمان نے بتایا کہ ’15 جولائی کو رات 12 بجے انہیں ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی، کال کرنے والی خاتون نے اپنا نام آمنہ عروج بتایا اور کہا کہ میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں، انگلینڈ سے آئی ہوں اور آُپ کے ساتھ ڈراما بنانا چاہتی ہوں جس کے بعد خاتون نے مجھے بحریہ ٹاؤن کی لوکیشن بھیج دی اور میں چار بج کر 40 منٹ پر وہاں پہنچ گیا۔‘
خلیل الرحمان قمر نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ آمنہ نے انہیں کمرے میں بٹھایا تو اسی دوران دروازے کی گھنٹی بجی۔ خاتون نے کہا کہ کوئی ڈیلیوری آئی ہے، دروازہ کھلتے ہی جدید اسلحے سے لیس تقریباً سات افراد اندر داخل ہو گئے اور ان کے ہاتھ کھڑے کروا کر ان کی تلاشی لی اور ان کا پرس لے لیا۔
’پرس میں چھ ہزار روپے، اے ٹی ایم کارڈ اور شناختی کارڈ وغیرہ تھا جبکہ میرا آئی فون 11 بھی لے لیا جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔‘
خلیل الرحمان قمر نے اپنے بیان میں بتایا کہ ’ملزمان نے مجھ سے زبردستی میرے فون کا پاس ورڈ لیا اور میرے فون کا ڈیٹا اپنے فون پر ٹرانسفر کر لیا اور مجھے بری طرح زدوکوب کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی دوران ایک ملزم ان کا اے ٹی ایم کارڈ لے کر اٹھا اور گن پوائنٹ پر اس کا پاس ورڈ پوچھا اور اے ٹی ایم مشین سے دو لاکھ 67 ہزار روپے نکلوا کر کہا کہ انہیں مار دینے کا حکم ہے اور ان سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ بھی کیا۔
’میں نے انہیں کہا کہ میرے پاس اتنی رقم نہیں تو سات مرد اور ایک خاتون مجھے اغوا کر کے فلیٹ سے نیچے لے آئے جہاں مزید پانچ مسلح افراد کھڑے تھے، جنہوں نے مجھے زبردستی گاڑی میں ڈالا، میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور مجھے نامعلوم جگہ کی طرف لے کر نکل پڑے۔
’تھوڑی دیر بعد ایک ویران جگہ پر مجھے اتارا جہاں اردگرد مسلح لوگ تھے اور مجھے سڑک کنارے بٹھا کر دو گاڑیوں میں کچھ اور لوگ وہاں آئے اور پھر میری آنکھوں پر پٹی باندھ کر کسی اور نامعلوم جگہ پر لے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خلیل الرحمان قمر کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران جو شخص گاڑی چلا رہا تھا اس نے ان کی ایک لاکھ روپے مالیت کی گھڑی بھی اتروائی، گاڑی سے نیچے اتار کر ان پر ذہنی و جسمانی تشدد کرتے رہے۔
’انہوں نے مجھے کہا کہ کلمہ پڑھ لو اور پھر میرے پاؤں پر فائر کیا جس سے خوش قسمتی سے میں بچ گیا۔ پھر انہوں نے مجھ سے مزید رقم کا مطالبہ کیا تو میں نے کہا کہ مجھے موبائل فون دیں میں کسی رشتہ دار یا دوست سے بندوبست کرنے کا کہتا ہوں۔
’انہوں نے جب موبائل فون دیا تو میں نے اپنے دوست حفیظ کو کال کی کہ مجھے 10 لاکھ روپے چاہییں۔ دوست نے کچھ دیر بعد مجھے کال کر کے بتایا کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں۔
’یہ سن کر وہ مجھے مارنے لگے اور پھر آنکھوں پر پٹی باندھ کر گاڑی میں لے کر نکل پڑے اور 15، 20 منٹ کے بعد مجھے کسی ویران جگہ پر اتار کر فرار ہو گئے۔‘
آرگنائزڈ کرائم یونٹ کے ڈی آئی جی عمران کشور نے بتایا کہ ’اغوا کاروں میں دو خواتین اور آٹھ مرد شامل تھے۔ خلیل الرحمان قمر کو آنکھوں پر پٹی باندھ کر اغوا کر کے لاہور سے تین گاڑیوں میں ننکانہ صاحب لے گئے۔
’اس دوران ملزمان خلیل الرحمان قمر کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے اور ان سے اے ٹی ایم کے ذریعے دو لاکھ 67 ہزار روپے نکلوا لیے۔‘
عمران کشور کا کہنا تھا کہ واردات کے بعد ملزمان انہیں ننکانہ صاحب میں ہی ایک ویران جگہ پر چھوڑ گئے، ملزمان ان کی گاڑی بھی ساتھ لائے تھے جو انہوں نے وہیں خلیل الرحمان قمر کے ساتھ چھوڑ دی جس پر وہ واپس اپنے گھر پہنچے۔
عمران کشور نے بتایا ’ہم نے کچھ افراد کو گرفتار کیا ہے لیکن ان کی تفصیل ابھی نہیں بتا سکتے کیونکہ تفتیش جاری ہے۔‘