کسی کے گھر موت ہوجائے تو آپ کس طرح سامنے والے کے دکھ درد میں شریک ہوں گے، کن الفاظ کا انتخاب کریں گے، ہمدردی کے دو بول کہنے کے لیے کیسے خود کو تیار کریں گے؟
یہی کہا جائے گا کہ صبر کرو، خدا جانے والے کے درجات بلند کرے، غمزدہ خاندان کو یہ صدمہ سہنے کی ہمت عطا کرے، نقصان بہت بڑا ہے لیکن زندگی چلتی رہتی ہے، اب تم ہی گھر کے بڑے ہو، تمہیں ہی سب کو اپنی اولاد سمجھ کر ساتھ لے کرچلنا ہے۔
یہ سب کہنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہر درد دل رکھنے والے اپنے ہوش ہو حواس میں ایسے ہی سامنے والے کو تسلی دے گا، دلجوئی کرے گا۔
لیکن یہ سب بیان کرنے کے لیے زبان کا دماغ کے ساتھ ناطہ جڑا رہنا ہے بہت ضروری ہے ورنہ زبان سے وہی کلمات نکلیں گے جو محترمہ فردوس عاشق اعوان نے 24 ستمبر کو ادا کیے۔ کشمیر کے باسی ابھی زلزلے کے جھٹکوں سے نہ سنبھلے تھے کہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی نے ایک اور زلزلہ برپا کر دیا۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا اپنے پیاروں کے لیے جائے اماں ڈھونڈنے والوں کے جذبات پر اپنے الفاظ سے مزید نمک چھڑکا۔ ان کے زخموں پر تسلی کا مرہم رکھنے کی بجائے مزاح کے انداز میں طنز کے گھاو لگائے۔
یوں محسوس ہوا جیسے محترمہ فردوس خود بھی ذہنی طور پر زلزلے کے جھٹکوں سے ہل گئی ہیں۔ دماغ کی کوئی رو بہکی اور زبان کی مشین گن سے جملوں کا برسٹ ایسا برسا کہ ہر شخص دانتوں میں انگلیاں دبا کر رہ گیا۔
سوشل میڈیا کانفرنس میں زلزلے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ’یہ زلزلہ آپ کی ورکشاپ کی وجہ سے آیا ہے، یہ نشانی ہے کہ جب تبدیلی آتی ہے تو زمین میں بے تابی ہوتی ہے، یہ تبدیلی کی نشانی ہے کہ زمین نے بھی کروٹ لی ہے۔‘
زمین نے تو کروٹ لی لیکن فردوس آپا کے ذہن نے ایسی کروٹ بدلی کہ آداب محفل، رسم دنیا، دستور اور بنیادی اخلاقیات کی عمارت کو بے حسی کے جھٹکوں سے زمیں بوس کردیا۔ اب یہ زبان کی پھسلن تھی، یا سنگین صورت حال سے لاعلمی کا نتیجہ، یا غیر سنجیدگی کی انتہا لیکن فردوس عاشق اعوان مسلسل مصر رہیں کہ ان کی گفتگو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ گمراہ کن طریقے سے پھیلایا گیا اور لوگوں نے ایجنڈا پھیلانے میں صحافت کے اصول ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے۔ ان کے رد عمل میں اگر، مگر، چونکہ، چناچہ، الزام تراشی سب کچھ تھا لیکن کمان سے نکلے تیر کی طرح جو لفظ وہ زبان کی کمان سے چھوڑ چکی تھیں ان پر نہ کوئی شرمندگی کا اظہار نظر آیا، نہ اپنی غلطی ماننے کا ظرف دکھائی دیا بلکہ الٹا ایک حکم نامہ صادر فرما دیا کہ اس گفتگو کو مزید نہ دکھایا جائے جو میں کہہ رہی ہوں اسی پر یقین کرلیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زبان کو بندوق بنا کر اس پر سے لفظوں کی گولیاں برسانے کا یہ پہلا اتفاق نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی فردوس عاشق اعوان یہ درفطنی چھوڑ چکی تھیں کہ حکومت کامیاب جا رہی ہے اور دو ٹکے کے لوگ ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر کامیابی کو ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ تھوڑا فلیش بیک میں جائیں تو کشمالہ طارق سے ہوئے ٹیلی ویژن مناظرے کے الفاظ سننے والے کو شرمندگی کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے کافی ہوں گے۔ اس ذہنیت پر اگر کوئی یہ حسن ظن رکھے کہ سامنے والا اپنی غلطی تسلیم کرے گا تو اس کو چاہیے جا کر کسی بھینس کے آگے بین بجالے۔
بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ ایک چپ، ہزار سکھ۔ پہلے تولو پھر بولو۔ جس معاملے میں بولنے کی ضرورت نہیں بہتر ہے کہ منہ بند رکھو۔ لیکن آپا کو اگر ہر معاملے پر کیمرے کے سامنے آ کر جلوہ افروز ہونے کا اتنا ہی شوق ہے تو بولنے سے پہلے لکھ لیجیے۔ لکھ کر اپنا مافی الضمیر کسی سیانے کو دکھا دیجیے۔ دوسروں کو پرچی دیکھ دیکھ کر پڑھنے کے طعنے دینے کا اتنا ہی زعم ہے تو جو لکھا ہے اسے حفظ کر لیجیے کم سے کم اگلے کو نگلنے کی ضرورت تو نہیں پڑے گی۔
ایسا ہی ایک نمونہ کچھ روز پہلے ہمارے نستعلیق وزیر خارجہ نے بھی پیش کیا۔ شاہ محمود قریشی جو ہر لفظ کو سوچ سمجھ کر چبا چبا کر ادا کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں انہوں نے بھی حالیہ دنوں میں امریکہ میں فصاحت و بلاغت کا وہ دریا بہایا کہ کہ خارجہ امور جیسے حساس شعبے کے ماہرین سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ محترم اس شعبے میں تو سارا کھیل ہی موقع محل کی مناسبت سے الفاظ کی ادائیگی کا ہے۔
سفارت کاری کےمیدان میں پھونک پھونک کر قدم نہ رکھیں جائیں تو اپنی پھونک نکلنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ یہاں ہتھیلی پر سرسوں جما کر دوڑنے سے مقاصد حاصل نہیں کیے جاسکتے، جذباتی جملوں کی حقیقت پروپیگنڈے کی ڈور سے بندھے شیخیوں کے غبارے سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن آفرین ہے شاہ صاحب پر جو بھارتی رہنماوں کے بیانات پر اتنے بھڑکے کہ سارے میڈیا کے سامنے کہہ گئے کہ وہ چاہیں تو ان کی پتلون اتار سکتے ہیں۔ جہاں یار لوگوں نے اس بیان سے خوب لطف اٹھایا وہیں بھارتی میڈیا کو ایک لطیفہ ہاتھ لگ گیا۔ جس نے ریٹنگ کے چکر میں بھارتی جنتا کو بچہ جمورا بنایا اور بارہ مصالحے کی ریٹنگ کی چاٹ سے خوب پیسہ کمایا۔
ویسے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہمارے سیاست دان ہمیشہ لوگوں کی پتلونیں اور شلواریں اتارنے پر ہی کیوں مصر ہوتے ہیں؟ ایسے لوگوں کی فہرست کافی طویل ہوسکتی ہے لیکن فلیش بیک کے لیے ماروی سرمد صاحبہ کے لیے حافظ حمد اللہ صاحب کے جملوں کو یادداشت سے کھنگال کر نکالیے، اس کے بعد سوچیے اورپھر نوچیے۔
اختلاف چاہے گھر کے اندر ہو یا باہر اگر شائستگی کے دامن میں اور تمیز کے دائرے میں ہو تو نہ زبان لڑکھڑائے گی نہ ذہنی رو بھٹکے گی نہ ہی الٹ سلٹ بولنے پر شرمندگی کا خوف دامن گیر ہوگا اور نہ ہی لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی نوبت آئے گی۔
یاد رکھیے زبان کا نلکا کھلا رہ جائے تو دماغ کی ٹنکی خالی ہوجاتی ہے اور ایک وقت آتا ہے جب منہ سے الفاظ نہیں صرف شوں شاں ہی نکلتی ہے اور پھر نہ صرف آپ کے الفاظ اپنی وقعت کھو دیتے ہیں بلکہ آپ بھی پہلے دوسروں کی نظروں سے گرتے ہیں اور پھر ساری زندگی خود سے آنکھیں چرانے میں ہی لگ جاتی ہیں۔