سماج کی ناہموار ڈگر پر لڑھکتی غربت، تضحیک اور معاشرتی گھٹن سے بغاوت کرنے والی قندیل بلوچ کو ریاست نے دوبارہ قتل ہونے سے بچا لیا۔ ملتان کی عدالت نے قندیل بلوچ کے والدین کی طرف سے معافی نامہ جمع کرانے کے باوجود قتل کے مرکزی مجرم محمد وسیم کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ یہ فیصلہ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل سے تحفظ فراہم کرنے میں اہم سنگ میل ہے۔
دو دہائی قبل خواتین کے تحفظ کے لیے کسی بھی طرح کی قانون سازی پر جو منفی رویہ سامنے آتا تھا اس کے موازنے میں آج کے حالات دیکھ کر یہ امید جاگتی ہے کہ پاکستان میں ریاستی سطح پر خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کا عمل سست رفتاری سے ہی سہی مگر منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک طرف غیرت کے نام پر قتل کے قانون میں ترامیم نے اس قانون کو کافی مؤثر بنایا وہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خواتین کے خلاف جرائم کا خاتمے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
حال ہی میں کم عمری کی شادیوں جیسے مسائل پر قانون سازی کرنے کی کوشش پر پارلیمان میں جو رویہ سامنے آیا وہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد اور جرائم کی روک تھام کے لیے معاشرے کی سوچ میں تبدیلی کا عمل کافی سست اور غیر مؤثر ہے۔ غیرت کے نام پر قتل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ اسے ایک سنگین جرم کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ خاندان کے افراد کی جانب سے ہی اس جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے قتل کرنے میں ذیادہ تر خواتین کے وہ قریبی رشتے ملوث ہوتے ہیں جن کو ریاستی قوانین ان خواتین کے تخفظ کے لیے بنیادی شریک سمجھتےہیں۔ غیرت کے نام پر قتل ہونے کے جو واقعات اب تک رپورٹ ہوئے ان میں ذیادہ تر کیسز میں باپ بھائی چچا اور شوہر ملوث ہوتے ہیں۔ ایسے کیسز بھی منظر عام پر آئے جن میں مقامی جرگہ کے فیصلے خواتین کے قتل کے سبب بنے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر ہونے والے کافی کیسز سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ غیرت کے نام پر قتل کی بنیادی وجہ خواتین کا روایات کے خلاف جانا قرار دیا ہے جس میں اپنی پسند سے شادی کرنا، خاندان کی مرضی کے رشتے سے انکاری ہونا، ماں باپ کی مرضی کے خلاف ناکام شادی سے طلاق لینے کے علاوہ ایسے شعبے اپنانا ہے جو روایتی سوچ کے مطابق ناقابل عزت شعبے ہیں. اس فرسودہ سوچ کے نتیجے میں کئی خواتین اداکاری، گلوکاری اور ڈانس کے شعبوں سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قندیل بلوچ جب سوشل میڈیا پر سپر سٹار بن رہیں تھیں تو لوگ انہیں مشرقی روایات کے منہ پر کالک ملنے کے الزامات سے نواز رہے تھے۔ قندیل بلوچ اپنی زندگی کے حالات، پسماندگی اور پے در پے ناکامیوں سے بغاوت کر رہی تھی۔ ان ناکامیوں میں ناکام ازدواجی زندگی کے بعد ملازمت میں ناکامی بھی شامل تھی مگر وہی معاشرہ اسے اپنا مجرم ٹھہرانے میں مصروف تھا جو اسے دن بہ دن سپر سٹار بھی بنا رہا تھا۔
قندیل اپنے ماں باپ کی کفالت کررہی تھی، اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور توجہ حاصل کرنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے آئے روز نت نئے انداز میں سوشل میڈیا پر نظر آتی تھی، قندیل کو اس کی بے تکلفی اور غیر منافقانہ باتوں پر اس معاشرے نے آج بھی معاف نہیں کیا مگر اس کے بوڑھے والدین نے اپنی بیٹی کے قاتل بھائیوں کو راہ خدا معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔ جب پہلی بار یہ خبر سنی تو مجھے ایسا لگا کہ اب قندیل ایک بار پھر قتل ہو جائے گی لیکن اس قتل میں کون نامزد ہو گا؟
عدالت نے اس اعلان کے باوجود قندیل کے قاتل کو سزا دے دی۔ اگرچہ مجرم وسیم نے اپنے اعترافی بیان میں بہت واضح طور پر اپنی بہن پر خاندان اور بلوچ نام کی غیرت کو تار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔ مگر مقدمے کی کارروائی کے دوران عدالت میں قندیل کے بوڑھے ماں باپ نے جو بیانات جمع کرائے ان میں عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ قندیل کا قتل غیرت کے نام پر نہیں ہوا اور اس حوالے سے جو بھی تاثر قائم ہے وہ حقائق کے برعکس ہے۔ عدالت میں جمع کرائے گئے بیان حلفی میں قندیل کے والدین کا کہنا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون میں 2015 میں کی جانے والی ترمیم، جس میں غیرت کے نام پر قتل کے مجرم کو والدین یا قانونی ولی کی معافی کے بعد بھی آزادی نہیں ملتی، وہ قانون قندیل کے قتل کے بعد بنا اس لیے اس قانون کا اطلاق قندیل کے کیس پر نہیں ہوتا۔ اس قانون کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کا ارتکاب کرنے والے مجرم کو عمر قید ہو سکتی ہے لیکن کیا قتل غیرت کے نام پر ہوا یا نہیں یہ طے کرنا عدالت کی صوابدید ہے۔
میری رائے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ سماج اجتماعی شعور کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرے کہ کس طرح خواتین کو ان کی بنیادی آزادیوں اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے غیرت کے نام کا استعمال روکا جائے۔ انہیں غیرت کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے استحصال کا سلسلہ بند کیا جائے۔
جب قندیل بلوچ قتل ہوئی تو ہر سطح پر اس کے کردار دراصل ’برے کردار‘ کو اس کے قتل کا جواز بنایا جا رہا تھا۔ بہت کم آوازیں واضح طور پر قندیل کے قتل کی مذمت کر رہی تھیں۔
قندیل کے قتل کے خلاف نیشنل پریس کلب کے باہر ایک مظاہرے کے سلسلے میں جب میں نے چند واٹس ایپ گروپس میں پیغام بھیجا تو کچھ روشن خیال لوگوں نے مجھے خبردار کیا کہ قندیل ایک دوغلےکردار کا قتل ہے اور ایسے کرداروں کے قتل کو انسانی حقوق کی پامالی میں شمار کرنا نقصان دہ ہے۔ یہی سوچ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی نظر آرہی تھی۔ قتل کے جرم کی مذمت کے بجائے مقتول کے کردار کو زیر بحث لا کر قتل کو متنازع بنایا جا رہا تھا لیکن آج قندیل کیس پر ملتان عدالت کا فیصلہ ان سب لوگوں کے لیے ایک چراغ جلا رہا ہے جنہوں نے خواتین کے تحفظ کے لیے مخالفت کے باوجود قانون سازی کو یقینی بنایا۔
لیکن ان سماجی برائیوں کا خاتمہ صرف قوانین بنا کر ممکن نہیں۔ ریاست کے لیے یہ بہتر موقع ہے کہ وہ سماجی رویوں میں تبدیلی کے لیے ایک مضبوط بیانیہ پیش کرے، قانون کی عملداری سمیت میڈیا، سوشل میڈیا اور ان تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے جس سے عوامی رائے کو خواتین کی برابر حیثیت اور بنیادی آزادیوں کے حق میں ہموار کیا جا سکتا ہے۔