بیٹی کی شادی کا بوجھ زیادہ ہو گا یا لاش کا؟

اپنے دل سے بتائیں، اگر آس پاس کے لوگوں کا دباؤ نہ ہو، ان کے چبھتے ہوئے سوالوں اور ترچھی آنکھوں کا خوف نہ ہو تو آپ میں سے کتنے لوگ بیٹیوں کی شادی ایسے کریں گے جیسے سر سے کوئی بوجھ اتارا جاتا ہے؟

بیٹی کی شادی زبردستی کر دی اور ڈیڑھ ماہ بعد لاش گھر پہنچی لیکن اس بار یہ آسٹریلیا میں ہوا ہے۔

اپنی بیٹی کی زبردستی شادی کرنے پہ ایک پناہ گزین خاتون کو پچھلے ہفتے آسٹریلیا میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ جج نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ لڑکی ناقابل برداشت دباؤ میں تھی جس کی وجہ سے وہ شادی کرنے پہ مجبور ہوئی۔

یہ اس بچی کی دوسری شادی تھی، پہلی شادی بھی 15 سال کی عمر میں والدہ نے کروائی، وہ نہیں چل سکی، دوسری مرتبہ پھر زبردستی کی گئی اور اب کے بچی زندہ واپس نہیں آئی۔ قتل ہونے والی کی عمر 21 سال تھی۔

جج نے سزا سناتے ہوئے ان خاتون سے پتہ ہے کیا کہا، سنیے ’ آپ سمجھتی تھیں کہ آپ اپنی بیٹی کا بھلا کر رہی ہیں لیکن فی الحقیقت ایسا بالکل نہیں تھا!‘

عدالت میں بتایا گیا کہ لڑکی تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی، نوکری کرنا چاہتی تھی لیکن ماں نے ’خاندان کی ساکھ‘ برقرار رکھنے کے لیے اسے شادی پہ مجبور کیا۔ کیس کے اختتامی نوٹس میں جبری شادی کو باقاعدہ غلامی سے تعبیر کیا گیا اور لکھا گیا کہ ’آسٹریلیا میں ہر کسی کو آزادی ہونی چاہیے کہ اسے کب اور کس سے شادی کرنا ہے۔‘

مکمل خبر زیادہ تکلیف دہ تھی، بیوی کے قتل سے ایک دن پہلے شوہر نے ان کے میکے ایک ویڈیو بھیجی جس میں شکایت کی گئی کہ یہ دیر سے سوتی ہے، کھانا نہیں بناتی، گھر کی صفائی نہیں کرتی اور اس نے ’قربت کی کوششوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔‘ یہ آسٹریلیا تھا جہاں قتل ہونے سے پہلے ایک ایشیائی لڑکی اتنی ہمت دکھا گئی کہ وہ قربت کی کوشش کو مسترد کر سکے، کھانا نہ بنائے، دیر سے سوئے یا گھر کی صفائی نہ کرے ۔۔۔ بھائی نوکرانی چاہیے تھی؟ غلام بنا کے لائے ہو یا زندگی بھر کے لیے ایک ساتھ چاہیے تھا؟

شوہر کو عمر قید کی سزا ہو گئی، بچی کی ماں جس نے بیٹی کی زبردستی شادی کروائی تھی وہ تین سال قید کا فیصلہ سننے کے بعد بھی انکاری تھی کہ ’میں نے ماں کی حیثیت کا غلط استعمال‘ نہیں کیا۔

آپ کس کی سائیڈ پہ ہیں؟ جو لڑکی غریب بے قصور قتل ہوئی اس کی طرف یا آپ کے خیال میں والدہ نے ٹھیک کیا؟

اگر آپ کی ہمدردیاں لڑکی کے ساتھ ہیں تو اپنی بیٹی یا بہن کو اس قدر پریشر کیوں ڈالا ہوا ہے شادی کا؟

بھائی، اپنے دل سے بتائیں، اگر آس پاس کے لوگوں کا دباؤ نہ ہو، ان کے چبھتے ہوئے سوالوں اور ترچھی آنکھوں کا خوف نہ ہو تو آپ میں سے کتنے لوگ بیٹیوں کی شادی ایسے کریں گے جیسے سر سے کوئی بوجھ اتارا جاتا ہے؟

ٹی وی دیکھتا ہوں، خبریں سنتا ہوں، ہر جگہ سرخیاں چل رہی ہوتی ہیں کہ پاکستان میں اتنے فیصد خواتین غیر شادی شدہ ہیں، ان کی عمر فلاں حد سے تجاوز کر چکی ہے، آج جب یہ لکھ رہا ہوں تو سامنے ایک نئی سرخی ہے، پاکستان میں 29 اعشاریہ کچھ فیصد افراد غیر شادی شدہ کیوں ہیں؟ پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی ویب سائٹ کی اشتہاری مہم ہے، لیکن ملک کا سب سے بڑا چینل کیا یہ نہیں سوچتا کہ پیسوں کے چکر میں وہ شادی نہ کرنے والوں پر کتنا بڑا عذاب نازل کر رہا ہے؟ 

یہ خبریں، رشتے داروں کی باتیں اور دوستوں کے ’مخلص‘ مشورے ہی بنیادی وجہ ہوتے ہیں ماں باپ کی طرف سے مسلط کیے گئے ایسے ان گنت غلط فیصلوں کی ۔۔۔ لڑکا دیکھا، تنخواہ دیکھی، فٹ سے ریکمنڈ کر دیا کہ بھائی صاحب ایک رشتہ ہے نظر میں، کہیں تو بات چلاؤں؟ 

کسی کو رشتہ بھیجنے سے پہلے آپ نے کتنی تحقیق کی؟ کسی لڑکی یا لڑکے کو ایسے ہی سرسری سا جاننا کیا آپ کو اس قابل کر دیتا ہے کہ آپ انہیں بطور ’رشتہ‘ کہیں بھی گارنٹی کے ساتھ پیش کر دیں؟ چلے تو چاند تک، ورنہ شام تک؟ شادی کو جوا بھی ایسے ہی سیانوں نے کہا ہے جو آنکھیں بند کر کے بس پتے بھینکتے تھے کہ شرط ہاریں یا جیتیں، گیم ختم ہو کسی طرح!

اولاد کی شادی بہت بڑی ذمے داری ہوتی ہے، کوئی شک نہیں، لیکن اس سے بڑی ذمے داری یہ ہوتی ہے کہ بیٹی کو جس کے پلے باندھا جائے وہ اس قابل بھی ہو، قابل نہ ہو تو کم از کم بیٹی کی سو فیصد مرضی شامل ہو۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مرضی کی بات بھی اخلاقاً یا انسانی حقوق کے چکر میں نہیں کر رہا، تلخ معاملہ ہے لیکن سچ یہی ہے کہ مرضی ہو تو بچے پھر بھی ذمے داری لیتے ہیں، آگے بڑھنے کی تگ و دو کرتے ہیں، سرے سے مرضی نہ ہو تو دونوں طرف سے جان چھڑانے والا کام ہوتا ہے۔ یہی نوبت بعد میں آنی ہے تو کیا برائی ہے کہ بچی گھر میں رہے؟ جب تک آپ کی زندگی ہے آپ دیکھیں، جب نہیں ہو گی تو دنیا بھر کا دستور ہے، بڑھتے دنوں کو آج تک کون روک سکا ہے؟ ان میں اچھے اور برے وقت بھی اسی طرح آتے ہیں جیسے اب ہیں، آپ کے ہوتے ہوئے۔ 

بہت کم کسی خبر کو بنیاد بنا کے بات کرتا ہوں لیکن یار یہ آسٹریلیا والا کیس بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ ہمارے خطے کے لوگ جس ملک میں پناہ لینے جاتے ہیں کچھ عرصے بعد اس کے اپنے رہنے والے ان سے پناہ مانگنے لگتے ہیں، کبھی سوچا ہے کیوں؟ 

پاکستانیوں کو ابھی نیا ہار پہنایا ہے کئی ملکوں نے وہ دیکھیے جا کر، کہ آتے کام کرنے ہیں لیکن جدھر عورتیں دیکھتے ہیں ویڈیو بنانا شروع کر دیتے ہیں، کبھی الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں، اب ہمارے جو بھائی لوگ مزدوری کرنے جاتے تھے آس پاس، ان کی جگہ بھی افریقی جایا کریں گے۔ 

کُل ملا کر اتنی سی بات ہے کہ رحم کا معاملہ کریں، شادی کے ڈائنامکس اب بدل چکے ہیں، بچے نئے دور میں پیدا کر لیے ہیں تو ان کے ساتھ پاؤں بھی رکھ لیں اس زمانے میں، آنکھیں کھولیں، زمین اور فلک وغیرہ دیکھیں، بدلتا ہوا سورج دیکھیں اور پھر کوئی حساب کتاب لگائیں۔ 

بیٹی اپنے گھر میں رہے، صحت سے رہے، ٹھیک رہے، ساری دنیا کو سائیڈ پہ رکھیں۔ سب نے اپنے حصے کا رزق کھانا ہے، جس دن اس غریب کا رزق آپ کے یہاں سے اٹھ گیا، آپ چاہ کے بھی نہیں روک پائیں گے۔ 

باقی اللہ مالک!

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ