بہت سی کتابوں کو دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ یہ کام کسی نہ کسی نے تو بہرحال کرنا تھا۔
شفیع عقیل تھے، وزیر آغا تھے، شہزاد احمد، نند کشور وکرم، مشفق خواجہ، ڈاکٹر سلیم احمد، شیما مجید، سید تقی، رئیس امروہوی بلکہ کسی حد تک داؤد رہبر اور کئی دوسرے کہ جنہوں نے اپنی پسند کے موضوعات پہ لکھا، تنقیدی، تحقیقی یا تدوینی نوعیت کا سارا کام کیا اور اسے وقت کی موج کے حوالے کر دیا۔
(اگرچہ اپنی زندگی میں ایک کتاب کار خود کو ہمیشہ سب سے برتر سمجھتا ہے لیکن علم بہرحال اسے ہوتا ہے؛ بلکہ، آسرا ہوتا ہے کہ بہرحال آخری فیصلہ وقت کا ہو گا تو موج کے حوالے کرنا ہی پڑتا ہے بلکہ مرنا بھی پڑتا ہی ہے۔)
(یہ بالکل رینڈم نام ہیں، رعب ڈالنے کے لیے مغربی مصنفین کے نام بھی شامل کیے جا سکتے تھے لیکن مقصد پڑھنے والوں کے ذہن میں ایک ہیولہ سا قائم کرنا ہے۔)
میں پوری کتاب پڑھتا ہوں، اس میں سے کم از کم ایک خیال ایسا مجھے مل جاتا ہے جو میرے لیے نیا ہوتا ہے۔ اس پر میں سوچ سکتا ہوں، میں مطمئن ہو جاتا ہوں۔
میں سوچتا ہوں کہ انہوں نے بھی کیا وہی ایک بات کہنے کے لیے پوری کتاب لکھی ہو گی؟
بعض کتابوں میں چند صفحے میں بطور نشانی موڑ دیتا ہوں، کچھ سطروں پر نشان لگا دیتا ہوں، کیا لکھنے والوں کو بھی آئیڈیا ہو گا کہ اس کتاب کا اصل مغز وہی صفحے یا لائنیں تھیں؟
اصل مغز ہی کی بات پر مجھے خیال آتا ہے کہ وہ لوگ اگر بسیار نویس نہ ہوتے، جلدی تھک جانے والے ہوتے، سوچتے کہ ہم نے کیا لکھنا ہے اور کتنا کاٹنا ہے؛ تو کیا وہ لوگ یہ سب کچھ لکھ پاتے؟
اور کیا میں ظلم کر رہا ہوتا ہوں جب میں سمجھتا ہوں کہ اصل کام کی بات وہی تھی جو میں نے سمجھی؟
تب مجھے آئیڈیا ہوتا ہے کہ ہر زمانہ کسی موجود کتاب سے اپنی ریلیونس خود پیدا کرتا ہے۔ جب تک ریلیونس رہتی ہے مصنف زندہ رہتا ہے، وہ ختم تو پھر ان کتابوں کے تازہ ایڈیشن چھپنے بند ہوتے ہیں اور اس کے بعد وہ لائبریری کے پچھلے خانوں میں دفن ہو جاتی ہیں۔
کوئی ایک آدھ نئے پن کا متلاشی انہیں فٹ پاتھ یا اندھیرے شیلفوں سے ڈھونڈتا ہے، پڑھتا ہے، اسے کوئی نئی بات نظر آ جاتی ہے ۔۔۔ یعنی ایک نئی ریلیونس ۔۔۔ کتاب پھر سے حرکت میں آ جاتی ہے۔
اساطیر اور بیسٹ سیلرز (پاپولر اور کلاسیک دونوں ادب پارے) میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ انہیں لکھنے والے جانتے ہیں کہ انسان کس چیز کے بارے میں جاننا کبھی نہیں چھوڑے گا، کیا چیز ہمیشہ ریلیونٹ رہے گی، اور کون سے موضوع فیصلہ چاہتے ہیں۔
وہ یہ سب کچھ سوچ کر لکھی دی جاتی ہیں، ان میں بات فیصلہ کن ہوتی ہے اور ہر معاملے پر ایک رخ میں بات کر کے فیصلہ پیش کر دیا جاتا ہے۔
جن کتابوں کی بات میں کر رہا تھا، ان میں فیصلے کا راستہ بالعموم قاری پر چھوڑا جاتا ہے، یہ ان کی خوبصورتی ہوتی ہے۔
ہر زمانے کے بیسٹ سیلرز کو پڑھنے والے فیصلہ سننا چاہتے ہیں، خود سے تولنا نہیں چاہتے۔ ہر زمانے کے سنجیدہ پڑھنے والے چونکہ خود بھی سوچتے ہیں، تو انہیں باغی ہونا پڑتا ہے اور وہی ہوتے ہیں جو کونے کھدروں میں جھانکتے ہیں اور اگنورڈ کتابیں تلاش کرتے ہیں۔
تو میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ 'کسی نہ کسی نے تو بہرحال یہ کام کرنا تھا' ۔۔۔ یہ بھی ٹھیک سوچ نہیں۔
میرے پاس صرف شکرگزاری بچتی ہے ان کے لیے، جو فیصلے کا تعین کیے بغیر میرے لیے سڑک پہ نشان لگا گئے کہ یہ راستہ فلاں طرف جائے گا اور یہ فلاں سمت، جدھر جانا ہے جاؤ، ہم اس سے آگے نہیں جائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اور کل ملا کے یوں ہے کہ لکھنے سے جان نہیں چھڑانا چاہیے۔ اگر آپ کے پاس کوئی خیال ہے اور آپ لکھنا جانتے ہیں تو اسے سامنے ضرور لانا چاہیے، کتاب نہیں تو سوشل میڈیا پر ہی سہی، لیکن لکھیں ضرور۔
کوئی پرانی کتاب ہے اور آپ اس کی نئی اشاعت چاہتے ہیں اور وسائل نہیں ہیں تو کم از کم ای بک ضرور بنا دینی چاہیے۔
اسی طرح اگر آپ مصنف ہیں تو بھی بسیار نویسی کے خوف کی بجائے مستقل مزاجی آپ کا اہم مسئلہ ہونا چاہیے (اوپر درج کیے گئے نام سوچ کر یہ بات کہہ رہا ہوں۔)
اور اگر آپ تدوین کار ہیں، نئی کتاب مرتب کر سکتے ہیں تو بھی اس کی سافٹ کاپی ضرور بنا دیجیے۔
پڑھنے والا پہنچ جائے گا، خیال اور اس کا مکمل متن ریکارڈ پر موجود ہونا چاہیئیں۔ ڈیجیٹل ہو یا کتابی شکل، یہ غیر اہم ہے۔
لکھا ہوا کچھ بھی ہو، وہ ایک دم بے کار کبھی بھی نہیں ہوتا۔ کچھ نہ کچھ اس میں سے ایسا نکل آتا ہے جو نئے پڑھنے والے کو آگے بڑھا دیتا ہے۔
ایک کڑی، ایک زینہ، ایک مثلث، ایک خیال ۔۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔