بلوچستان دھرنے جاری، کئی شہروں میں خوراک کی قلت کا خطرہ

صوبے میں راستوں اور مواصلاتی نظام کے بند ہونے کے باعث کئی شہروں اور دیہاتوں میں اشیا خورد و نوش کی کمی پیدا ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

28 جولائی 2024 کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر احتجاج ہو رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر دھرنے جاری ہیں جبکہ پاکستان فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی دہشت گرد تنظیموں اور مافیا کی پراکسی ہے۔

پیر کو راولپنڈی میں میڈیا نمائندوں کو دی جانے والی بریفنگ میں ان کا کہنا تھا کہ ’بیرونی فنڈنگ اور بیانیے پر جتھے کو جمع کر کے انتشار پھیلاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’گوادر میں رٹ آف دی گورنمنٹ ہے، واضح کردوں، بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اُس کی نام نہاد لیڈر شپ کو کام ملا ہے کہ جو ادارے دہشتگردی کے خلاف سمگلرز اور بھتہ خوروں کو بدنام کر رہے ہیں ان کو متنازع کیا جائے، بے جا مطالبات پیش کرو، جب ریاست جواب دے تو معصوم بن جاؤ۔‘

ادھر صوبے میں راستوں اور مواصلاتی نظام کے بند ہونے کے باعث کئی شہروں اور دیہاتوں میں اشیا خورد و نوش کی کمی پیدا ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

بلوچستان حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے تمام مطالبات قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے مذاکراتی عمل کے متوازی انتظامیہ ان کے کارکنوں کر گرفتار بھی کر رہی ہے۔

27 جولائی کو بلوچستان سمیت کراچی اور ڈیرہ غازی خان سے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر گودار میں منعقد ہونے والے احتجاج میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں لوگ قافلوں کی شکل میں روانہ ہو رہے تھے، جب انہیں مختلف مقامات پر روک دیا گیا۔  

بلوچ یکجتی کمیٹی نے دعوی کیا کہ مختلف مقامات پر ان کے  قافلوں میں شریک لوگوں پر تشدد بھی کیا گیا جب کہ مستونگ میں ایک قافلے کے شرکا پر فائرنگ بھی کی گئی جس سے تقریباً 14 افراد زخمی ہوئے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبگر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 27 جولائی کی دوپہر ایک بجے کے قریب انہیں کوئٹہ سے گودار جاتے ہوئے کوئٹہ کی آخری حدود سونا خان تھانے کے قریب روکا گیا۔

’ہم متبادل راستہ اختیار کرتے ہوئے دشت سے مسونگ جا رہے تھے جب مستونگ کے مقام پر ہمارے قافلے پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 14 افراد زخمی ہوئے، جن میں ایک اس وقت قوما میں ہے اور تین شدید زخمی ہیں۔

احتجاج میں شرکت کرنے والے قافلوں کے سامنے حائل رکاوٹوں کے بارے میں وزیر اعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے صوبائی اسمبلی میں بتایا کہ ان دنوں گودار میں ایک وفد آنے والا ہے اور سی پیک سے متعلق سرگرمی ہونا ہیں اس لیے یہ اجتماع کرنا مناسب نہیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ احتجاج کے منتظمین نے ضلعی انتظامیہ سے کسی قسم کا اجازت نامہ بھی نہیں حاصل کیا۔

مستونگ کے واقع کے بعد احتجاج کی غرض گوادر کی طرف جانے والے قافلوں کے شرکا نے جہاں موجود تھے وہی دھرنے شروع کر دیے، جو ابھی تک جاری ہیں۔

یہ دھرنے کوئٹہ، گودار، تربت، نوشکی اور دالبندین کے علاوہ دوسرے کئی علاقوں میں ہو رہے ہیں۔

صوبائی حکومت کے حکم پر ضلعی انتظامیہ نے ان دھرنوں کے پیش نظر تربت اور گودار کے داخلی راستے بند کر دیے ہیں، جب کہ ان علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولتیں بھی منقطع کر دی گئیں ہیں۔

تربت، گوادرم پنجگور اور ارد گرد علاقوں میں مواصلاتی نظام منقطع ہو گیا ہے اور ان علاقوں سے باہر کسی کا اپنے عزیز و اقارب سے رابطہ ممکن نہیں رہا۔

تاہم اتوار کو گودار میں پی ٹی سی ایل کی لینڈلائن بحال کر دی گئی تھی اور پی ٹی سی ایل کا فائبر فلیش انٹرنیٹ بھی مخصوص مقامات پر کام کر رہا ہے۔

27 جوالائی سے پانچ اگست تک مکران کے ضلع گودار، تربت اور پنجگور کا بڑے شہروں سے زمینی رابطہ بھی منقطع رہا، جس کے باعث ان شہروں میں اشیا خورد و نوش کا بحران جنم لے چکا ہے۔

اس بارے میں گودار سے تعلق رکھنے والے صحافی اسماعیل عمر نے انڈپینڈنٹ ادرو کو بتایا کہ آخری مرتبہ 27 جولائی کی شام کے بعد سے انٹرنیٹ کام کر رہا ہے نہ موبائل فون۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بھائی کو کافی دن پہلے گرفتار کیا گیا لیکن انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز معطل ہونے کے باعث انہیں اتوار کو علم ہوا۔

بیبگر بلوچ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان حکومت ایک طرف مزاکرات کرتی اور پھر ان کے کارکنوں کی گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے تفتان کا راستہ بلاک ہے اور مذاکرات کئی ناکامیوں کے بعد کامیابی کے قریب ہیں۔ 

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کے واقع کے بعد کمیٹی نے مذاکرات مؤخر کر دیے اور صوبے کے کئی علاقوں مٰن اب بھی دھرنے جاری ہیں۔

گودار  میں پسنی سے تعلق رکھنے والے صحافی ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گودار شہر کو سوڈ ڈیم، اکاڑہ ڈیم اور شادی کور ڈیم سے پانی کی ترسیل بند ہونے کے باعث وہاں پینے کے پانی کا بحران جنم لے رہا ہے، جس کی تصدیق گودار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حکام نے بھی کی۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی سے اندرونی مکران کو اشیا خورد و نوش لے جانے والے گڈز ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں کو بھی اوتھل کے مقام پر روکا گیا ہے، جس کے باعث مکران میں کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل رکی ہوئی ہے اور قلت پیدا ہو رہی ہے۔ 

صوبائی حکومت کے ترجمان شاہد رند بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دو روز قبل جب حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا گیا جس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے دستخط موجود ہیں، جس پر عمل درآمد کے لیے حکومت تیار تھی لیکن دوسری طرف سے پیش رفت نہیں ہوئی۔

’انہوں نے اپنا دھرنا ختم نہیں کیا۔ حکومت اس انتظار میں تھی دھرنا ختم اور معاہدے پر عمل درامد ہو گا۔ حکومت نے پھر بھی گرفتار افراد کی رہائی کا حکم دیا اور وفاقی حکومت سے انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی بحالی کی درخوست کی۔

’اور فی الحال ہمارے پاس اطلاع یہ ہے کہ وہ معاہدے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ڈیڈلاک جاری ہے۔‘

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیااللہ لانگو نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ مظاہرین نے کوئٹہ میں توڑ پھوڑ کی جب کہ حکومت نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔

’لیکن انہوں نے گوادر میں احتجاج کی کال دے دی، جس پر حکومت نے ان سے مذاکرات کیے اور ان کے مطالبات منظور کر لیے لیکن دھرنا ختم نہیں کیا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان