گوادر: مذاکرات کی حکومتی پیشکش، مظاہرین کا رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے پیر کو گوادر میں مظاہرہ کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نےشکایت کی ہے کہ حکومت ایک جانب مذاکرات کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف ’فائرنگ‘ بھی کرتی ہے۔

28 جولائی، 2024 کی اس تصویر میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرے میں شریک افراد(اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نے پیر کو گوادر میں مظاہرہ کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دی ہے جس پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ حکومت ایک جانب مذاکرات کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف ’فائرنگ‘ بھی کر رہی ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے پیر کو صوبائی اسمبلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پھر سے اعلان کرتی ہے ہمارے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔ ہم تیار بیٹھے ہیں۔ آئیں اور ہم سے بات کریں۔‘

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’جو دوست اپوزیشن میں سے کردار ادا کرنا چاہتے ہیں آجائیں میرے پاس، ہم ان کو کردار بتاتے ہیں وہ جائیں اور ادا کریں کردار۔ ہم تو تیار بیٹھے ہیں کہ آئیں اور ہم سے بات کریں۔‘

سرفراز بگٹی نے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’جتھوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کسی کو پرتشدد احتجاج کی اجازت نہیں دیں گے۔‘

احتجاج کی وجوہات

مظاہرین نے ہفتے کو حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور وسائل کے ضیاع اور استحصال کے خلاف ریلی نکال کر احتجاج کیا ہے۔ اس احتجاج میں صوبہ بلوچستان کے دیگر مقامات پر بڑی تعداد میں مظاہرین بھی شامل ہوئے ہیں۔

بحیرہ عرب پر واقع تزویراتی طور پر انتہائی اہم سمجھی جانے والی گوادر کی بندرگاہ چین کے وسیع و عریض بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا حصہ ہے۔ حکام نے پاکستان کے سب سے بڑے اور پسماندہ صوبے بلوچستان کے کچھ حصوں میں مواصلاتی بلیک آؤٹ نافذ کر دیا ہے جہاں مقامی افراد دہائیوں سے حکومت مخالف مظاہرے کرتے رہے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کیا ہے؟

بلوچ یکجہتی کمیٹی کو وسائل سے مالا مال صوبہ بلوچستان کے لیے فوائد کے زیادہ حصے کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، جو بین الاقوامی کمپنیوں کے ذریعے چلائے جانے والے کئی ارب ڈالر کے سونے اور تانبے کی کانوں سمیت متعدد اہم منصوبوں کا گھر ہونے کے باوجود ملک کا سب سے کم ترقی یافتہ صوبہ ہے۔

دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ہم نے مذاکرات کا خیرمقدم کیا ہے۔ ہم بھی مذاکرات کرنا چاہتے تھے۔‘

بیبرگ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف تو مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب پرامن احتجاج پر فائرنگ کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج احتجاج پر دھاوا بولا گیا اور ہماری تمام اعلیٰ قیادت کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کے مطابق سمی دین بلوچ اور ڈاکٹر صبغت اللہ شاہ سمیت متعدد رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ دھرنا جاری رہے گا اور بلوچستان کے مختلف مقامات پر بھی احتجاج کیا جائے گا، جب تک ہمارے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔‘

بیبرگ بلوچ نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ انہیں ’ہسپتالوں تک رسائی نہیں دی جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں زخمی یا جان سے جانے والوں کی تعداد کا علم نہیں ہو پا رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل پاکستان فوج نے بھی پیر کو صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں جاری احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے کہا تھا کہ ’ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں ’نام نہاد بلوچ راجی مچی مظاہرین نے ایک سکیورٹی اہلکار کو تشدد کا نشانہ بنایا جس کے باعث وہ جان سے گیا۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق ’پرتشدد مظاہرین کی جانب سے بلا اشتعال حملوں کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 16 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔‘

پاکستان فوج کا کہنا ہے کہ ’سوشل میڈیا پر جعلی اور بدنیتی پر مبنی پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے جس میں پراپیگنڈا کرنے والوں کی جانب سے مسخ شدہ تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی پرتشدد مارچ کے لیے ہمدردی اور حمایت حاصل کی جا رہی ہے۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’سکیورٹی فورسز نے اشتعال انگیزی کے باوجود غیر ضروری شہری اموات سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان