’کارگل کا گورکھا‘ میجر کاظم کا مشرقی پاکستان

میجر کاظم نے 10 بٹالین آزاد کشمیر ریگولر فورس سے سفر کا آغاز کیا، پھر اوڑی اور دراس سیکٹر میں انڈین فوج کی دراندازی کے تدارک کے لیے آپریشن ڈیزائن کیا اور عملی طور پر بھی حصہ لیا۔

اس تصویر میں میجر کاظم کے بھائی میجر قاسم داہنی طرف موجود ہیں (عاشق فراز)

کافی پہلے’ دا واٹر ڈیوائنر‘ کے نام سے رسل کرو کی فلم دیکھی تھی جس میں انہوں نے ایک کسان کا کردار نبھایا ہے۔

اس فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح برطانوی اتحاد کو سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں گلیپولی کی مہم میں پہلی جنگ عظیم کے دوران شکست ہوتی ہے اور وہاں آسٹریلیا جو کہ برطانیہ کا اتحادی تھا ادھر ایک کسان کے تین بیٹے مارے جاتے ہیں۔ ان کی ماں ان تینوں کے مرنے کی خبر سن کر خود کشی کر لیتی ہے۔

آسٹریلوی کسان اپنے تین بیٹوں کے بقیہ جات کی تلاش میں گلیپولی جاتا ہے تاکہ لا کر انہیں ان کی ماں کے ساتھ دفن کرے۔ اس سفر میں اور بیٹوں کے جسد ڈھونڈنے میں کیا کیا جتن کرتا ہے وہ دیکھنے کے لائق ہے۔

یہ میں کیوں لکھ رہا ہوں تو قصہ یہ ہے کہ بنگال کے بہیراب بازار کے پاس پاکستان کی فوج کے ایک بہادر میجر محمد کاظم کی جائے مدفن کی نشان دہی ہوئی جو 1971 کی جنگ میں وہاں جان سے گئے تھے۔

لیکن اس نشان دہی کے لیے 44 سال لگ گئے اور میجر قاسم نے کیا کیا کشٹ اٹھائے وہ دکھ، آنسوؤں اور خوشی کے مشترکہ احساس میں لپٹی ہوئی دل کو چھونے والی کہانی ہے۔

متذکرہ فلم میں تو باپ بیٹوں کی تلاش میں گلیپولی جاتا ہے جب کہ اس کٹھن اور دکھ بھرے سفر میں ایک چھوٹا بھائی 44 سال بعد اپنے بڑے بھائی کی قبر کی تلاش میں بنگال کے ’اشوگنج‘ پہنچ جاتا ہے، جنگ کے مقام کو ڈھونڈ نکالتا ہے اور معجزاتی طور پر بھائی کی قبر والی جگہ کی نشان دہی بھی ہو جاتی ہے۔

میجر کاظم کون تھے، کہاں پلے بڑھے اور کیوں کر بنگال میں جا کر شہید ہوئے یہ سب بیان کرنا اتنا آساں کہاں ہے اس کو سمجھنے کے لیے 1947 سے بھی پہلے کا سفر کرنا پڑے گا۔

یہ کہانی ہمیں سنائی ہے میجر قاسم نے۔ ان کے خاندان کی اس کہانی میں محنت، ہمت، جرات، ہجرت، خدمت اور شہادت کی ایسی داستان پوشیدہ تھی جس کے ہر ہر موڑ پر تحیر، دکھ اور امید و بیم کی آویزش نمایاں نظر آتی تھی۔ بظاھر یہ کہانی سناتے ہوئے میجر قاسم ہمارے ساتھ ساتھ تھے مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ زمان ومکاں سے آزاد ان لمحوں میں، ان جگہوں پر جی رہے تھے جہاں جہاں ان کے خاندان اور میجر کاظم کے شب و روز گزرے تھے۔

رجب علی خان، میجر کاظم اور میجر قاسم کے والد کارگل کے رہنے والے تھے۔ گاؤں میں ذرائع روزگار محدود، زمین بھی کم اور پہاڑی ڈھلوانوں پر مشتمل تھی۔

انہوں نے میسوری انڈیا کا رخ کیا اور محنت شاقہ سے تعمیراتی کام میں اچھا خاصا روزگار بنایا۔

ان کے دوستوں میں نواب آف رامپور اور راجا آف ٹِکاری تھے۔ ان دونوں نوابوں کی مسوری ہلز اور ڈیرہ دون میں جائیدادیں تھیں جن کی وہ دیکھ بھال کرتا تھا اور تعمیرات کا کام بھی۔ یہ شکار کے ساتھی بھی تھے اس کے علاوہ مسوری چرچ کے بڑے ریورینڈ بھی ان کے دوست تھے اور جب پاکستان آئے تو اپنی تمام جائیداد کے کاغذات بھی ریورنڈ کے حوالے کر کے آئے تھے۔

انہوں نے تعلیم کو بڑی فوقیت دی اور بچوں کی نگہداشت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کاظم کو میسوری کے ایک اچھے سکول Oak Grove Jharipani میں داخل کیا اور ابتدائی تعلیم اچھے انداز میں شروع ہوئی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔

ابھی زندگی اچھے ڈگر پر چل رہی تھی کہ برصغیر میں انگریزوں کے خلاف بڑا جوار بھاٹا اٹھا اور تاج برطانیہ کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ ہر طرف سے ’انڈیا چھوڑ دو‘ کی آوازیں بلند ہوتی گئی اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو سر تسلیم خم کرکے آزادی پلان کا اعلان کرنا پڑا۔

لیکن یہ اعلان اتنا پرامن نہیں رہا، مسلمانوں اور ہندوؤں میں آزادی کو لیکر ایک گہری خلیج بن گئی جسے آنسو اور خون بھی مل کر نہیں پاٹ سکے۔ یوں ایک عظیم ہجرت وقوع پذیر ہوئی۔ ادھر کاظم کے خاندان میں بھی ہلچل پیدا ہوئی، کسی نے کہا کہ اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہیے، لہٰذا جو ہو سو ہو یہیں پر ٹھہرتے ہیں۔ لیکن رجب علی کو قرار نہیں آیا، اس کے دل و دماغ پر پاکستان چھایا ہوا تھا، اس نے تمام امیدیں پاکستان سے باندھ رکھیں تھیں لہذا اس کی بے قراری اسے نچلا بیٹھنے نہیں دیتی۔

اس نے ٹھان لیا تھا کہ حالات جو بھی ہوں، جتنی بھی مشکل سد راہ کیوں نہ ہو اپنی خوابوں اور امیدوں کی سرزمین پاکستان کی مٹی کو آنکھ کا سرمہ بنانا ہے۔ اسی جذبے سے سرشار ہجرت کی سختیوں اور الام ومصائب سے گزر کر مظفر آباد پہنچے اور روٹی روزی کی فکر میں جٹ گئے۔

سارا مال و متاع لٹا کر نئی جگہ آباد ہونا کوئی آساں مرحلہ کہاں تھا اور ایسے میں جب کار زندگی کے لیے آسماں سخت تھا وہیں پر رجب علی نے بچوں کی تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ کاظم کو مری میں پڑھائی کے لیے بھیج دیا گیا اور بعد ازاں گارڈن کالج راولپنڈی سے انہوں نے گریجویشن کی اور پھر 1957 میں آرمی جوائن کیا۔

بظاہر کاظم چھوٹے قد کاٹھ کے مالک تھا مگر جرآت و بہادری میں اس کا مقام بہت اونچا تھا۔ ابتدائی تربیت سے لے کر مختلف محاذوں پر ڈیوٹی دینے کے دوران اس کا ولولہ اور شوق ہمیشہ جنوں خیز رہا۔ کسی بھی ذمہ داری اور سٹریٹجک ٹاسک میں وہ دوسروں سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہا بلکہ آگے بڑھ کر ہر چیلنج کو لبیک کہا۔

یہی وجہ تھی کہ اس کے ساتھی اسے ’گورکھا‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ گورکھا دراصل نیپال کے وہ تبتی النسل افراد ہیں جو اپنی جانفشانی، بلند ہمتی اور پہاڑوں پر ہر قسم کے حرب و ضرب کے حوالے سے جنوبی ایشیا میں مشہور ہیں۔

کاظم نے 10 بٹالین آزاد کشمیر ریگولر فورس سے سفر کا آغاز کیا پھر اوڑی اور دراس سیکٹر میں سیز فائر لائن پر انڈین فوج کی اشتعال اور دراندازی کے تدارک کے لیے ایک جان لیوا آپریشن کو خود ڈیزائن کیا اور عملی طور پر بھی حصہ لیا۔ اس کاروائی کی تفصیل ریٹائرڈ میجر جنرل سید علی نے آرمی انسٹیٹیوٹ آف ملٹری ہسٹری کے تحت چھپنے والی کتاب The Gurkha from Kargil میں دی ہے۔

محمد کاظم کی اس جرات اور بہادری کا اعتراف 1964 میں ستارۂ جرات دے کر کیا گیا جو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب نے انہیں عطا کیا تھا۔

1965  کے دوران کاظم کی ڈیوٹی دراس سیکٹر کے محاذ پر تھی۔ یہ علاقہ بلتستان کی وادی شنگھو شغر سے متصل ہے اور نہایت اہم سرحدی جگہ ہے۔ دراس میں زوجی لا ہے جو مقبوضہ کشمیر اور لداخ کے درمیان حد فاصل ہے۔

1948 میں گلگت سکاؤٹس نے اسی سرحدی علاقے میں معرکہ آرا جنگ لڑی تھی اور 1999 کی کارگل جنگ کا گرم ترین محاذ بھی یہی تھا۔

محمد کاظم نے رکنا کہاں تھا لہٰذا اسے اب اپنی زندگی کا آخری معرکہ لڑنے 1971 میں مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دور مشرقی پاکستان جانا ہوا۔ لیکن یہ جنگ مختلف تھی یہاں دشمن انڈیا نئے لباس میں سامنے کھڑا تھا۔

دل اتنے کٹھور ہو گئے تھے کہ پاکستان کا ایک بازو دوسرے کے مدمقابل آ گیا تھا۔ شک، غلط فہمی اور عدم اعتماد کے گھنے بادلوں میں سب کچھ الجھ کر رہ گیا تھا۔ میجر کاظم کو اس سے غرض نہیں تھی کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں سیاست کی بساط کس طرح کی بچھی ہوئی ہے اور کون سا مہرہ کیا چال چل رہا تھا۔

وہ ایک پروفیشنل سولجر تھا جس کے سامنے اس وقت اسے تفویض کی گئی ذمہ داریاں تھیں جن کی بجا آوری کی خاطر اسے اپنی جان کی پروا نہیں تھی۔

یہ اشوگنج کا مقام ہے یہاں ایک گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ یہ سرحدی علاقہ تھا اور اس سے متصل انڈین علاقے سے انڈین فوج داخل ہوکر اشو گمج ہوتی ہوئی آگے ڈھاکہ کی طرف بڑھنا چاہتی تھی۔ میجر کاظم۔ اور12AK  کے نوجوان بڑی دیدہ دلیری سے لڑے، میجر کاظم کو گردن، سینے اور کمر پر گولیاں لگیں وہ خون کے تالاب میں ڈوب گیا۔ اس کے منہ سے آخری جملہ یہ نکلا I am dying but carry on۔

ہر طرف خون، آگ اور دھواں پھیل گیا۔ مغربی پاکستان سے ہزاروں کلومیٹر دور میجر کاظم زمین کی رزق بن گیا۔

16دسمبر 1971 کو کاظم کے والد کو محکمانہ اطلاع دی گئی کہ کاظم گم شدہ فوجیوں کی فہرست میں شامل ہے اور ہو سکتا ہے کہ جنگی قیدی بنا لیا گیا ہو۔

ماں باپ کے آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں پھوٹ رہی تھیں اور انتظار کی گھڑیاں ختم نہیں ہو رہی تھی۔ ریڈ کراس کے تحت قیدیوں کی جو فہرست تیار ہوئی تھی میجر کاظم کا نام اس فہرست سے بھی خارج تھا۔ ماں باپ اور گھر والوں کا دل بیٹھا جا رہا تھا، امید و بیم کی کیفیت میں جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔

بالآخر17 اگست 1974کو خبر ملی کہ کاظم تو گھر سے ہزاروں میل دور ’نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن‘ کے مصداق رزق خاک ہوا ہے۔

ماں باپ کی آنکھیں پتھرا گئیں ان کے پاس کاظم کی تصویریں اور استعمال کے کچھ کپڑے رہ گئے تھے جنہیں انہوں نے آنکھ کے لیے سرمہ بنائے رکھا۔ میجر کاظم کو جنگ کی ہولناکی اور جاں سے گزرنے جانے کا تیقن زیادہ تھا لہٰذا وہ اپنی طے شدہ منگنی کو بھی ختم کر کے گیا تھا۔

میجر کاظم کے ایک کورس میٹ اور دوست میجر عبدالرشید موثر نے حکایت ڈائجسٹ لاہور کے ستمبر 1985 کے شمارے میں میجر کاظم سے دوستی، آرمی میں انتخاب، دوستوں کے ساتھ نٹ کھٹ اور کاظم کی مشرقی پاکستان جانے سے پہلے کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو خوبصورتی سے تحریر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جب میجر کاظم نے اپنی منگیتر سے رشتہ ختم کیا تو سب دوست انگشت بہ دنداں رہ گئے تھے تب کاظم نے یہ کہا کہ میرا سفر اب یک طرفہ ہے یعنی واپسی ممکن نہیں۔

1971کی جنگ ماضی کے دھندلکوں کی نذر ہو گئی مگر اس زخم سے درد کی ٹیسیں مسلسل اٹھتی رہتی ہیں، مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش بن گیا تھا۔

وقت نے کروٹ لی، میجر کاظم کے چھوٹے بھائی قاسم نے بھی وہی راہ اپنائی جس کا انتخاب اس کے بھائی نے 1954 میں کیا تھا۔ 1974 میں قاسم نے آرمی میں شمولیت اختیار کی اور میجر کے عہدے تک جا پہنچے۔

اس نے سیاچن میں بھی ڈیوٹی سر انجام دی مگر پھر گھریلو مجبوریاں آڑے آئیں، والدین کا بڑھاپا اور ان کی خدمت گزاری کے لیے قاسم نے قبل از وقت ملازمت چھوڑ دی، 1979 میں والد کا انتقال ہوا۔ میجر قاسم نے ذاتی کاروبار اور کنسلٹنسی کا کام شروع کر دیا۔

زندگی عام ڈگر پر چل رہی تھی کہ اچانک ایک نیا موڑ آیا اور مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش پھر اس خاندان کی زندگی میں داخل ہوگیا۔ بعض رشتے اور تعلق ایسا ہوتا ہے کہ وہ رگ و پے میں سرایت کر جاتے ہیں اور زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سامنے آکر اپنے ہونے کا احساس خاص شدت سے عیاں کرتے ہیں۔ میجر قاسم کے خاندان کا مشرقی پاکستان سے ایک رشتہ تو میجر کاظم نے اپنے جسم و جاں سمیت وہاں پیوند خاک ہوکر قائم کیا تھا اب دوسرا رشتہ قائم کرنے میں قدرت اپنا کام کر رہی تھی۔

میجر قاسم کے بچے بڑے ہو گئے، ایک بیٹی اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا کے شہر سڈنی چلی گئی اور وہیں پر قدرت نے وہ کام کیا جو علت و معلول سے کہیں آگے بڑھ کر ایک قدم ہے۔ میجر قاسم کی بیٹی کا اپنے ایک کلاس فیلو سے رشتہ پکا ہو گیا اور شوخیِ تقدیرِ دیکھیے کہ لڑکے کا تعلق بنگلہ دیش سے اور اسی جگہ کے آس پاس سے ہے، جہاں میجر کاظم نے اپنی جاں 1971 میں بڑے چاؤ کے ساتھ جان آفرین کے سپرد کر دی تھی۔

برات لے کر میجر قاسم بنگلہ دیش پہنچ گیا جہاں اپنی بیٹی کا گھر بس جانے پر وہ بےحد خوش تھا، وہیں پر ماضی کی یادوں کی چھبن اسے بےقرار کرتی رہیں۔

اسے میجر کاظم کی خوشبو محسوس ہوتی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ یہ آس پاس سے اٹھ کر آ رہی ہے، آواز دے رہی ہے اسے بلا رہی ہے۔ وہ بےقرار ہوکر خاموش باہر گلیوں میں بڑی دیر تک گھومتا رہا، لیکن اس کے اندر کی تنہائی میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔

میجر قاسم اشوگنج کے مقام پر میں بنے وار میموریل میں بھی کچھ دیر جا کر بیٹھ گیا جہاں بنگالی فریڈم فائٹرز کے کارنامے درج تھے۔ میجر قاسم کو بھی وہ نظم یاد آئی ہو گی جو فیض احمد فیض نے 1974 میں ڈھاکہ سے واپسی کے دوران کہی تھی۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے

کچھ دن بعد وہ لوٹ کر واپس پاکستان پہنچا لیکن اس کی جان اشوگنج میں اٹکی ہوئی تھی۔ اس کا وجدان اس سے کہہ رہا تھا کہ کچھ انہونی ہو کر رہے گی، اس کی بےقراری کو قرار دینے کا سامان ہو کر رہے گا، لیکن کیسے یہ تصورات کے کینوس میں ابھی تک واضح نہیں ہوا تھا۔

تین سال بعد وہ عید الاضحیٰ کے موقعے پر بیٹی اور اس کے سسرال والوں سے ملنے پھر بنگلہ دیش پہنچا۔ عید کی خوشیاں اور کچھ اچھے دن تو عزیزوں کے ساتھ گزارے مگر وہ روز اکیلا اشو گنج اور بیہراب بازار کے اطراف میں بے چین روح کی طرح گھومتا رہتا۔ ایک چھوٹے سے چائے خانے پر وہ کچھ دیر روز رک جاتا جہاں سگریٹ کے کش کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ارد گرد کے مناظر اپنے اندر سمیٹنے میں مگن رہتا تھا۔

ایک دن چائے والے نے اس سے استفسار کیا کہ وہ کون ہے اور اتنا بےقرار کیوں دیکھائی دیتا ہے۔ قاسم نے بتایا کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہے اور یہاں اس کی بیٹی بیاہی گئی ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ جگہ اس کے لیے کیوں خاص ہے کہ اس کا بڑا بھائی 1971 میں یہیں کہیں ایک سکول کے احاطے میں پیوست خاک ہوا تھا لیکن اس کے قبر والی جگہ کی نشان دہی نہیں ہو رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چائے والا کچھ دیر خاموش ہوا اور پھر قاسم سے مخاطب ہو کر بتایا کہ یہاں قریب ایک مولوی صاحب ہیں اور وہ 1971 کے کچھ واقعات کا عینی شاہد رہے ہیں شاید وہ کچھ مدد کر سکیں۔

میجر قاسم کو یہ بات ہاتف غیبی کی طرف سے اچانک مدد معلوم ہوئی اس کے وجدان کی کلبلاہٹ اسے کچھ بتا رہی تھی کہ یہ عقدہ کھلنے والا ہے۔

میجر قاسم اس چائے والے لڑکے کے ساتھ سکول کے احاطے کے چاروں طرف پروانے کی طرح چکر کاٹنے لگا، کچھ لوگ جمع ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے اپنے آپ کو امام مسجد کے طور پر متعارف کرایا اور پھر 1971 کے اس جان لیوا آپریشن کا منظر اس کے الفاظ میں ڈھل کر بیان ہونے لگا۔

اس نے بتایا کہ وہ 1971 میں نوجوان تھا اور اسی جگہ پر ہونے والی مُڈبھیڑ کا عینی شاہد بھی تھا۔ اس نے ایک ویران کونے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہاں پر میجر صاحب کو الگ سے دفن کیا گیا تھا جبکہ باقی سپاہی مشترکہ طور پر کہیں قریب ایک کھڈے میں مٹی ڈال کر برابر کیا گیا۔

میجر قاسم کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی آخر کار 44 سال بعد وہ اس جگہ پر تھا جہاں میجر کاظم محو استراحت تھا۔ وہ اس جگہ پر گر گیا اور دیر تک قبر کو بانہوں میں بھر کر روتا رہا۔ اس کا وجدان اور غیبی اشارے آخر کار اسے وہاں پہنچا گئے جہاں اس کی کل کائنات زمین میں مدفن تھی۔

اس نے جسد خاکی کو پاکستان لے جانے کے لیے دونوں حکومتوں سے درخواستیں بھی کیں مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا۔

سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے اے جے کے سینٹر اٹک میں میجر کاظم کے نام سے ایک یادگار تعمیر کی ہے جبکہ اے جے کے سنٹر کی طرف سے ایک آڈیٹوریم اور بلاک میجر کاظم کے نام سے منسوب ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ