بالی وڈ فلم ’مسز‘ شوہروں کو بہت کچھ سوچنے کا موقع دیتی ہے

فلم ’مسز‘ اس پیغام کو عام کرتی ہے کہ ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے کہ جب شوہر یا سسرال والے یہ تسلیم کریں کہ خاتون کی اصل جگہ صرف  باورچی خانہ نہیں۔

انڈین فلم مسز کا پوسٹر (باویجا سٹوڈیو)

’بیٹا نہیں ہوں، میں بیٹی ہوں۔ جو عزت بیٹے کو ملتی ہے وہ بیٹی کو بھی ملنا چاہیے۔‘ بہت کچھ بیان کرتا اور سبق سکھاتا یہ جاندار مکالمہ نئی بالی وڈ فلم ’مسز‘ کا ہے، جو صنفی مساوات کے مسئلے کی بہترین انداز میں عکاسی کرتی ہے۔ 

ایک ایسی تخلیق جو مرد حضرات کو یہ باور کراتی ہے کہ باورچی خانہ صرف خاتون خانہ کی ہی جگہ نہیں۔

حال ہی میں او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر نمائش پذیر ہونے والی اس فلم کے ستارے کوئی نامی گرامی شہرت یافتہ فنکار نہیں بلکہ اوسط درجے کے ہیں۔ یقینی طور پر سنہا ملہوترہ اور کنول جیت سنگھ کے علاوہ کسی اور سے بیشتر فلم بین واقف بھی نہ ہو۔ 

چھوٹے بجٹ کی یہ تخلیق 2021 میں آنے والی ملیالم زبان کی فلم ’دی گریٹ انڈین کچن‘ کا ری میک ہے، جو مرد حضرات بالخصوص شوہروں کو بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ خواتین کو بااختیار اور خود مختار بنانے کے لیے اس فلم سے ملنے والا پیغام سب سے بہترین ہے۔

کہانی کیا ہے؟

 ایک ایسی لڑکی کی داستان جس نے کسی کی شریک سفر بننے کے بعد اپنے خواب اور عزم کو ادھورا چھوڑ دیا۔ لیکن پھر زندگی کے ایک موڑ پر ان کے حصول کی خواہش جاگی تو روایتی سماجی دیواریں اس کے آس پاس کھڑی کردی گئیں۔

کہانی بہت سادہ  بلکہ کہانی گھر گھر کی ہے۔ ریچا شرما یعنی سنہا ملہوترہ ایک پیشہ ور رقاصہ بنی ہیں، جن کی شادی ڈاکٹر سے ہو جاتی ہے۔ اپنے خوابوں کو پس پشت ڈال کر ریچا ایک ایسے گھرانے میں قدم رکھتی ہیں، جہاں ان کے سسر اور شوہر کی دلچسپی کا محور صرف اور صرف کھانے ہیں۔ ایک ایسا گھرانہ جہاں ان کی ساس صبح سے شام اور پھر رات تک صرف باورچی خانے کی مہمان بنی رہتی ہیں۔ بلکہ ان کے دن کا آغاز تو صبح چار بجے سے ہی ہو جاتا ہے جب وہ کھانا پکانے میں جت جاتی ہے۔

ساس ہی کی طرح ریچا بھی یہ ذمہ داری نبھانے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی ہیں کیونکہ انہیں ابتدا سے ہی ذہن نشین کرا دیا گیا تھا کہ اس کا اصل ٹھکانہ باورچی خانہ ہے۔ اس بے چاری دلہن کو تو شادی کے تحائف بھی باورچی خانے کی اشیا کے ہی ملتے ہیں۔ یہی نہیں نئی نویلی دلہن بیاہ کے اگلے ہی روز باورچی خانے میں پہنچا دی جاتی ہے۔

یہ وہ سسرال ہے جہاں سسر کو برقی آلات پر نہیں بلکہ سل بٹے پر چٹنی پسی ہوئی ملنا چاہیے، جو پریشر ککر میں پکی بریانی کو پلاؤ قرار دیتے ہیں۔ مطلب کھانے پینے کے معاملے میں اس کے تمام تر تقاضوں اور لوازمات سے نہ صرف سسر بلکہ شوہر بھی واقف ہیں۔ یہ سب اس ریچا کے لیے عجیب سا ہوتا ہے، جو ماں کے گھر باورچی خانے میں ذرا کم ہی مصروف رہی ہو۔

کھانا پکانے سے ناواقف ہونے کے باوجود ریچا اس میں مہارت حاصل کرتی ہیں۔ لیکن سسر اور شوہر کی طرف سے تعریف کے دو بول سننے کے لیے کان ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں فارغ اوقات میں سکول میں رقص سکھانے کے لیے شوہر اور سسر سے التجا کرتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ساس نے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود خود کو صرف باورچی خانے کے لیے محدود کر لیا تو ریچا بھی اپنے شوق کی قربانی دے کر صرف اور صرف گھرداری پر توجہ دے۔

چھوٹے چھوٹے پُراثر ڈرامائی مناظر

فلم میں انتہائی تعلیم یافتہ ڈاکٹر گھرانے کی عکاسی کی گئی ہے، جو اس جانب بھی اشارہ ہے کہ بسا اوقات تعلیم بھی پسماندہ، فرسودہ اور روایتی سوچ کو بدل نہیں پاتی۔ متاثر کن امر یہ ہے کہ ریچا کا شوہر خواتین کے جسمانی نظام کا ماہر(گائناکولوجسٹ)  ہے لیکن اس کے باوجود اپنی شریک سفر کے جذبات اور احساسات کو سمجھ ہی نہیں پاتا۔ بلکہ وہ جسمانی تعلق کو بھی محض نسل بڑھانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ریچا چاہتی ہے کہ شوہر اس سے دل جوئی کرے، اسے لبھائے اور جب وہ اس کا شکوہ کرتی ہیں تو انتہائی درشت لہجے میں جواب ملتا ہے کہ تم سے دل جوئی کیسے کی جا سکتی کیونکہ تمہارے پاس سے تو کھانا پکانے کی چیزوں کی بدبو آتی ہے۔

سنہا ملہوترہ نے کئی مناظر میں مکالمات سے زیادہ چہرے کے تاثرات کا بھرپور استعمال کیا ہے۔ کنول جیت سنگھ نے تو اپنے تمام تر فنی تجربہ کا اظہارفلم ’مسز‘ میں کمال خوبی سے کیا۔ ہدایت کارہ آرتی کیدیو کی ڈائریکشن بھی کمال کی ہے۔ ایک منظر کے بعد دوسرا دیکھنے والوں کو اس تخلیق سے جوڑے رکھتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فلم کے ایک پروڈیوسر ہرمن باویجا ہیں، جو ماضی قریب میں اداکاری بھی کرتے رہے ہیں۔

ٹپکتا پائپ اور ریچا کا انتقام

فلم میں ریچا کے باورچی خانے کے سنک کا پائپ پانی لیک کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں شوہر سے پلمبر کا تقاضہ کیا جاتا ہے تو وہ سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹال مٹول ہی کرتا رہتا ہے۔ ریچا تھک ہار کر پائپ پر کپڑا باندھ دیتی ہیں اور پھر جب پانی اور رسنا شروع کرتا ہے تو پائپ کے نیچے بالٹی رکھ دیتی ہیں۔ دراصل ٹپ ٹپ کرتا یہ لیک ہونے والا پانی اس کی ازدواجی زندگی کے مسئلے کی علامت ہے جو مستقل بہہ رہا ہے جسے ریچا روکنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ بالٹی رکھ کر اس مسئلے کو نظر انداز کرتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فلم میں اسی پانی کو ریچا کی اندورنی کیفیت سے تشبیہ کیا گیا ہے اور جب بالٹی ریچا کے اندرونی کیفیت کی طرح ضبط کے تمام تر بندھن توڑ کر لبریز ہوجاتی ہے تو ریچا وہ فیصلہ کرتی ہیں جو ان کی ازدواجی زندگی میں طوفان برپا کردیتا ہے اور یہی فلم کا خاصہ ہے۔

 ہدایتکارہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورت پہلے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مدد مانگتی ہے اور جب یہ نہیں ملتی تو خاموشی سے حالات کو قبول کر لیتی ہے۔ یہی خواتین کی زندگی کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے۔ انہیں یا تو حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے یا پھر بغاوت کر کے سب کچھ توڑدینا پڑتا ہے۔

ریچا کا یہ مسئلہ نہیں کہ انہیں گھر کے کاموں میں دلچسپی نہیں بلکہ انہیں یہ چیز بےچین کرتی ہے کہ انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ شوہر ان کے لیے صرف رات میں چند لمحے جسمانی تعلق کے لیے نکالتا ہے، جبکہ دن بھر ایک ٹیلی فون کال کرنا گوارہ نہیں کرتا۔

شوہر ہی نہیں ان کے دیگر رشتے داروں سے تعلق بھی کھانے کے مختلف پکوانوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ سسرال اور شوہر کو خوش کرنے کی وہ ان تھک محنت کرتی ہیں لیکن ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک اسے جی بھر کر رونے کی بھی اجازت نہیں۔

درحقیقت فلم کا بیانیہ یہی بن جاتا ہے کہ ایک خاتون گھر اور باورچی خانہ سنبھالنے میں ناکام ہو چکی ہے اوراسی بات کا احساس ریچا کو تواتر کے ساتھ دلایا جا رہا ہے۔ لیکن وہ امید کا دامن نہیں چھوڑتیں اور اپنے وجود کی بقا کے لیے سوال اٹھاتی ہیں۔ ان زنجیروں کو پیروں سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں جن کے ذریعے انہیں باورچی خانے میں قید کیا جا رہا ہے۔

کیا فلم مرد حضرات کے خلاف ہے؟

فلم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تخلیق ایک غلط فہمی یہ بھی پھیلا سکتی ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کو گھریلو کاموں سے مسئلہ ہے اور یہ بھی کہ دور حاضر کی لڑکیاں گھروں کے کام کاج میں دلچسپی نہیں لیتیں تبھی شادیاں ناکام ہورہی ہیں اور طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔

درحقیقت ایسا نہیں بلکہ فلم ’مسز‘ اس پیغام کو عام کرتی ہے کہ ازدواجی زندگی کو خوشگوار اسی وقت بنایا جاسکتا ہے کہ جب شوہر یا سسرال والے یہ تسلیم کریں کہ خاتون کی اصل جگہ صرف  باورچی خانہ نہیں۔

عورت کو عزت چاہیے، مساوات چاہیے اور ساتھ ہی اپنی پہچان بھی۔ یہ فلم ان تمام خواتین کے لیے ایک آئینہ ہے جو اب بھی پہچان، عزت، اور آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہیں بلکہ انہیں اس فلم میں اپنی زندگی کا عکس کہیں نہ کہیں مل جائے گا۔

پھر یہ فلم صرف شادی شدہ جوڑوں کے لیے نہیں بلکہ ہر سسرالی کے لیے بھی ہے۔ یہ فلم تفریح کے لیے نہیں بلکہ گہرا پیغام دینے کے لیے بنائی گئی کہ یہ ہراس عورت کی کہانی ہے جو اپنی شناخت کھو چکی ہے لیکن اگر ٹھان لے تو بہت کچھ بدل سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ