کراچی میں بنگالی شاعر سے منسوب اکیڈمی خستہ حال

کراچی کے علاقے صدر میں قائم دو کمروں پر مشتمل ’قاصی نذر الاسلام اکیڈمی‘ المعروف نذرل اکیڈمی ایک لائبریری ہے، جو بنگلہ دیش کے شاعر قاضی نذرالاسلام کے نام سے منسوب ہے۔

کراچی کے علاقے صدر میں قائم دو کمروں پر مشتمل ’قاصی نذر الاسلام اکیڈمی‘ المعروف نذرل اکیڈمی نامی لائبریری بنگلہ دیش کے شاعر قاضی نذرالاسلام کے نام سے منسوب ہے لیکن اب اس کی حالت کھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔

1956 میں قائم ہونے والی نذرل اکیڈمی کی حالت فی الحال نہایت ہی خستہ ہے اور لائبریری کباڑ خانے کا منظر پیش کر رہی ہے۔

لائبریری میں موجود کتابیں اور ان کے شیلف گرد سے اٹے ہوئے ہیں، جب کہ چھت کا پلستر کئی جگہوں سے اکھڑ کر گر رہا ہے۔

عرصہ ہوا نذرل اکیڈمی کو بجلی کی ترسیل منقطع کر دی گئی ہے۔

نذرل اکیڈمی میں اس وقت 30 ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں، جن میں بنگالی زبان میں بھی بہت سی کتب شامل ہیں، جنہیں جسے پڑھنے والے چاہ کر بھی نہیں پڑھ سکتے وجہ لائبریری کی حالت زار ہے۔

اکیڈمی کے سیکریٹری ڈاکٹر محمد علاؤالدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’جب تک تاحیات وفاقی وزیر محمود علی خان زندہ تھے اس اکیڈمی کی حکومت کچھ نہ کچھ سرپرستی کرتی تھی۔ لیکن اب کوئی مدد حاصل نہیں۔‘

نذرل اکیڈمی کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں قائم تھی لیکن سپریم کور ٹ کے حکم کے بعد بہت سی عمارتوں سمیت نذرل اکیڈمی کی عمارت کو بھی مسمار کر نے کا حکم دیا گیا تھا، جس کے بعد اکیڈمی کو پاکستان سیکریٹریٹ منتقل کیا گیا۔

ڈاکٹر محمد علاؤالدین کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ابھی تک قبضہ نہیں دیا گیا۔ اس دوران موسم کی سختیاں بھی آئیں اور بارش میں ہماری بہت سی کتابیں بھی ضائع ہوئی۔

’ہمیں عارضی طور پر بلاک 69 میں جگہ دی گئی لیکن دو سال گزر گئے یہ عارضی جگہ اس قابل نہیں کہ اکیڈمی کو چلایا جا سکے اور اس وجہ سے نذرل اکیڈمی کو تالے پڑ گئے ہیں۔‘

بقول محمد علاؤالدین: ’نذرل اکیڈمی ہم بنگالیوں کے لیے بہت بڑا ادارہ ہے۔ لائبریری میں قاضی نذر الاسلام کی شاعری اور سوانح حیات سمیت 30 ہزار کے قریب کتابیں موجود ہیں، جن میں بنگالی کے علاوہ اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں ہیں۔

’یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ نذرل اکیڈمی پاکستانی بنگلہ قوم کا اثاثہ ہے کیونکہ یہاں بنگلہ دیش کی تاریخ سے ثقافت سے متعلق کتابیں موجود ہیں، جن سے نئی نسل فائدہ اٹھا سکتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ لائبریری میں 1856 کی تحریر شدہ کتابیں بھی رکھی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ ’قاضی نذرالاسلام برصغیر کے شاعر تھے وہ اس بنگال سے تعلق رکھتے تھے جہاں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی اور جہاں سے پہلی مسلمان ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔

’آج بنگلہ دیش میں دیکھیں تو علامہ اقبال کے نام پر اکیڈمی بہترین انداز میں چل رہی ہے، جب کہ یہاں نذرل اکیڈمی کا حال بہت برا ہے۔‘ 

عبدالحلیم پاکستانی نژاد بنگالی ہیں اور گلوکار ہونے کے علاوہ کتابوں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر نذرل اکیڈمی کا رخ کیا کرتے تھے جب یہ آباد ہوا کرتی تھی۔ ان کے لیے نذرل اکیڈمی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ انہیں  ڈر ہے کہ اگر اکیڈمی کا نام و نشان نہ رہا تو پاکستانی بنگلہ قوم کا بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔

عبدالحلیم نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ جس طرح  ڈھاکہ میں ’علمہ اقبال کے نام سے منسوب لائبریری آباد ہے اسی طرح نذرل اکیڈمی کو بھی بحال کیا جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ