تقریبا تین سالوں سے ریئل اسٹیٹ معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ اس کی بڑی وجہ ٹیکسوں کی بھرمار اور زیادہ شرح سود ہے۔ شرح سود بتدریج کم ہو رہی ہے اور ٹیکس پر بھی ریلیف دینے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پہلے ڈالر کی قیمت بڑھا کر پیسہ کمایا گیا، پھر سونے میں کالا دھن ڈال کر پیسہ بنایا گیا، پھر سٹاک ایکسچیبج کو نچوڑا گیا اور شاید اب ریئل اسٹیٹ میں سے پیسہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کراچی میں پراپرٹی کی ایف بی آر ویلیو بھی کم کی گئی ہے اور اوور سیز پاکستانیوں کو پراپرٹی خریدنے اور بیچنے پر ایڈوانس ٹیکس سے استثنیٰ دینے کی تیاری ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ٹیکس ریلیف سے ملکی معیشت کو بھی فائدہ ہو گا یا نہیں؟
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آج کل پاکستان میں مقامی سرمایہ کاروں کی اکثریت ریئل اسٹیٹ سیکٹر سے جڑی ہے، ایک وقت تھا جب انڈسڑی میں سرمایہ کاری ریئل اسٹیٹ کی نسبت دو گنا زیادہ تھی لیکن آج ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری انڈسٹری میں ہونے والی سرمایہ کاری سے تقریبا 2.5 گنا زیادہ ہے۔
’پچھلے کچھ سالوں میں اس میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، سب کچھ الٹ ہو چکا ہے۔ ریئل اسٹیٹ میں اتنی بڑی سرمایہ کاری ملکی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، بے روزگاری تقریباً 10 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کہ کچھ سال پہلے تقریباً 6 فیصد تھی۔ ایسی صورت حال میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو دوبارہ بوم دینے کی کوشش کرنا ایک اور حماقت ثابت ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا: ’جب بغیر محنت کیے پلاٹوں پر کروڑوں روپے کا منافع ہونے لگے تو کون شخص فیکٹری لگائے گا اور 40 سے 50 شعبوں کے لیے روزگار پیدا کرے گا۔ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس ریلیف دینے سے درآمدات پر بوجھ بڑھے گا، ڈالر ذخائر کم ہوں گے، کیونکہ پاکستان میں تعمیر کا بیشتر سامان برآمد کیا جاتا ہے۔‘
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے چیئرمین محمد حسن بخشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میری وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف دینے کے لیے کوشش کر رہے ہیں، ان کا فوکس غریب آدمی کو مناسب قیمت پر گھر کی سہولت دینا اور فائلوں کے بزنس کو ختم کرنا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے: ’ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو ریلیف ملنے سے ملک کی 72 انڈسٹریز چل پڑیں گی۔ سیمنٹ، ریت، مٹی، ٹائلز سمیت اکثر اشیا پاکستان میں بنتی ہیں۔ مزید فیکٹریاں لگ سکتی ہیں، تعمیری لاگت کم ہو سکتی ہے، ملکی ٹیکس آمدن بڑھے گی اور ملک کا جی ڈی پی بھی بڑھے گا۔
’اس وقت ریئل اسٹیٹ تقریباً 30 فی صد پر کام کر رہی ہے، اگر یہ 80 فی صد پر کام کرنے لگے تو تقریبا 1.5 ٹریلین روپے ٹیکس صرف اسی سیکٹر سے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کم و بیش پچاس لاکھ ملازمتیں فوری پیدا ہو سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان برآمدات سے زیادہ ڈالرز بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلات سے وصول کرتا ہے۔ اس وقت تقریبا 32 بلین ڈالرز ترسیلات زر ہیں، اگر تعمیراتی سیکٹر کو سہولتیں ملیں تو ترسیلات زر 40 سے 50 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہیں۔
’جرمنی نے دوسری عالمی جنگ کے بعد تعمیراتی سیکٹر پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔ قطر، دبئی، سعودی عرب بھی ریئل سٹیٹ سیکٹر پر توجہ مبذول کیے بیٹھے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہ غلط فہمی ہے کہ ریئل سٹیٹ سیکٹر ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ حقیقت میں یہ واحد سیکٹر ہے جو ملک کو غربت سے نکال سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق: ’ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں بہتری سے عام آدمی کے لیے ترقی کرنا آسان ہو سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور امریکہ میں سٹیل کی قیمتیں پاکستان کی نسبت کم ہیں۔ وہ بھی پاکستان کی طرح سٹیل درآمد کرتے ہیں۔ قیمتیں کم ہونے کی وجہ اکانومی آف سکیل ہے۔
’اگر پانچ ہزار گھروں کے لیے سٹیل درآمد کیا جائے تو وہ مہنگا ملے گا اور اگر پچاس ہزار گھروں کے لیے سٹیل درآمد کیا جائے تو وہ سستا ملے گا۔ پاکستان میں تقریبا 12 ملین گھروں کی کمی ہے۔ اگر پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر بہتر ہوا تو عام آدمی کو اپنی چھت مل سکتی ہے۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تعمیراتی سیکٹر کو ریلیف دینے سے اس طبقے کو روزگار مل سکتا ہے جو ان پڑھ ہے اور کوئی ہنر بھی نہیں آتا۔ پاکستان میں ایسے لوگ باہر جا کر مزدوری کرتے ہیں اگر ملک میں ہی کام چل پڑے تو ان سے یہیں کام لیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ترقی یافتہ ممالک میں ریئل سٹیٹ سیکٹر جی ڈی پی کا تقریبا 20 فیصد ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ بمشکل 3 فیصد ہے۔ بہتری اس وقت ہو گی جب بینک سستے قرض دے گا۔ 22 کروڑ کی آبادی میں اگر پراپرٹی خریدنا صرف چالیس لاکھ فائلرز تک محدود کر دیا گیا تو پراپرٹی سیکٹر میں تو کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہو گی۔‘
کرنسی ایکسچیبج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تعمیراتی سامان کی برآمد سے ڈالر پر دباؤ آسکتا ہے لیکن ترسیلات زر میں اضافہ بھی ہو گا، جس سے دباؤ میں کمی آ سکتی ہے۔
’بدقسمتی سے ریئل اسٹیٹ سیکٹر سب سے بڑا سرمایہ کاری کا شعبہ بن گیا ہے اور ہر دوسرا بندہ پراپرٹی ڈیلر بنا ہوا ہے۔ اگر ٹیکس ریلیف دینا ہے تو ڈویپلرز کی بجائے عام آدمی کو دیا جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ریئل اسٹیٹ کو ٹیکس ریلیف دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جتنا چاہیں کالا دھن لگائیں کوئی نہیں پوچھے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اگر کالے دھن کو سسٹم میں لانا مقصد ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں، لیکن دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں ایسے ریلیف سے معیشت کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔‘
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔