حالات جیسے بھی ہوں سالگرہ پر تو مبارک باد ہی دینا بنتی ہے، تو چلیے پھر اسی سے شروع کرتے ہیں!
پاکستان کی 77 ویں سالگرہ، یوم آزادی، ہم سب کو بہت بہت مبارک! ہماری یہ سرزمین، یہ گھر علامہ اقبال کی دور اندیشی اور قائداعظم محمد علی جناح کی بے نظیر قابلیت اور ہمت اور لاکھوں مسلمانوں کی لاتعداد قربانیوں کے عوض ہمیں نصیب ہوا ۔
اس بگڑتی ہوئی دنیا میں جہاں فتور اور تفرقہ تیزی سے پھیل رہا ہے، ہم جتنی بھی اپنے پاک وطن کی، اپنی سر زمین کی، اپنے پاکستان کی قدر کریں وہ کم ہے۔
پاکستان کی پیدائش کی داستان جہاں درد ناک ہے، وہیں ہمت افزا بھی ہے کہ نہایت مشکل حالات میں جب ملک کی حکومت کی شروعات کی جانی تھیں، سب چیزوں کی بنیاد ڈالنی تھی، اقتصادیات کی، سیاست کی، اداروں کی اور پالیسیوں کی، غرض یہ کہ پاکستان کو بنیادوں پر کھڑا کرنا تھا۔
اور پھر ایک طرف علاقے میں دوستی کا ہاتھ بٹانے والے ملک کم ہی تھے کہ عالمی سطح پر پاکستان کی بقا کے بارے میں سوال اٹھائے جا رہے تھے۔ ایک طرف سیاسی قیادت کا فقدان تھا کیونکہ مسلم لیگ مضبوط سیاسی جماعت نہ بن پائی تھی، اس کی قیادت کمزور تھی اور پارٹی کا ڈھانچہ تقریباً غائب تھا۔ وہ تو قائداعظم کی ایک متاثر کن اور قدآور شخصیت تھے، جو اپنی انفرادی قیادت کو بحیثیت ایک منظم پارٹی بروئے کار لائے۔
لیکن قیام کے بعد مشکل سے سال بھی نہیں گزرا اور قائداعظم کی رحلت کے بعد پاکستان کے سامنے ہمالیہ سے اونچے چیلنج تھے اور قومی سیاسی قیادت ندارد۔ ہاں قابل تجربہ کار صوبائی قیادت اور سینیئر سول اور فوجی بیوروکریسی ضرور موجود تھی، لیکن پاکستان میں جمہوریت ایک مضبوط بیوروکریٹک سٹرکچر کے سائے تلے پنپ نہ پائی۔
آج جب پاکستان اپنی 77 ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس ابتدائی کمزوری کا شدت سے نہ صرف احساس ہے بلکہ وہ بنیادی کمزوری پاکستان کو نہایت نقصان دہ موڑ پر لے آئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طاقتور ادارے، کمزور سیاسی قیادت اور تقریباً ناقص و نازک پارلیمنٹ کی ایک طرف دوستی اور دشمنی اور دوسری طرف اتحادی اور سازشی کبھی دوست تو کبھی دشمن۔۔۔انہی حالات میں چلتے چلتے پاکستان میں کبھی سسٹم بدلے، کبھی لوگ بدلے اور کبھی پالیسی بدلی اور اس گڈ مڈ کا نتیجہ موجودہ اقتصادی، سیاسی، نظریاتی، معاشی، ریاستی اور سماجی بحران ہے۔
البتہ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں شاید بدلتے ہوئے حالات کو مدنظر رکھ کر اصلاحات کی گنجائش نظر آتی ہے۔ اس وقت جب زبان زد عام یہی حقیقت بیان کی جا رہی ہے کہ پاکستان کی پاور پولیٹکس کے دو بڑے فریقوں کے بگڑتے ہوئے تعلقات سلجھ نہیں پائیں گے، لیکن ایسا نہیں ہے۔
آئیے معاملات پر نظر ڈالتے ہیں۔
نمبر ایک: چند روز پہلے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملک کے طاقتور ترین خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید پر کرپشن اور ادارے کے قوانین کے خلاف ورزی کے چارجز ہیں۔
جس رخ بھی یہ کورٹ مارشل کی کارروائی جاتی ہے، اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ فوج کی اعلیٰ کمانڈ نے خود احتسابی کو اہم ترین اور یقیناً ضروری مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ نہایت مثبت قدم ہے، اس کے ساتھ ساتھ جنرل (ر) فیض حمید سے تفتیش کے دوران نو مئی 2023 کے معاملات کے اہم حقائق بے نقاب ہوں گے اور سابق ڈی جی شاید اس میں ملوث پائے جائیں گے۔
دوسری اہم بات: عمران خان جنرل (ر) فیض حمید، جو ان کے یقیناً قریبی دست راز تھے، کے کورٹ مارشل پر تقریباً خاموش رہے ہیں۔ یہ رویہ بانی چیئرمین کی عادت کے برعکس ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی خواتین، جو غیر قانونی طور پر پابند سلاسل رکھی گئیں، انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
البتہ ڈاکٹر یاسمین راشد ابھی تک قید میں ہیں، لیکن بہرحال کچھ بھی ہو، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت پر بالکل ناامیدی شاید درست نہ ہو۔
تیسری اہم بات: حالات کی بہتری یعنی معاملات کی درستگی اور طاقت کے بل بوتے سے ہٹ کر آئین اور قانون کی طاقت کو ماننے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے، جو ستمبر میں حلف اٹھائیں گے، حالیہ کلمات بہت اہم ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ سپریم کورٹ ہی آئین کی تشریح کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
جسٹس شاہ کی بات اور لہجہ دو ٹوک اور حتمی تھا۔
یہ کچھ علامتیں ہی ہیں، جو شاید بہتری کا عندیہ دیتی ہیں۔ یقیناً کشیدگی کو بڑھاوا دینا عین ممکن ہے کیونکہ پاکستان کے سیاسی کھیل میں بہت سے ایسے لوگ، پارٹیاں اور محرکات پیدا ہو چکے ہیں، جو کشیدگی چاہیں گے اور سنجیدگی سے معاملات کا سلجھاؤ نہیں چاہیں گے۔ بالکل ویسے ہی عمران خان نے نواز شریف کے دور میں اور پھر اپنے دور میں کیا۔
اس نقصان دہ کھیل میں کھلاڑی سبھی ہیں اور سبھی رہے ہیں۔ عارضی جیت بھی سب کی ہوتی ہے اور طویل مدتی ہار بھی۔ شاید ان کھلاڑیوں میں کوئی معتبر سوچ ابھرے اور سب کھلاڑیوں کو کچھ رولز آف دا گیم پر آمادہ کریں اور ساتھ ہی موجودہ کرائسز کو کسی سیٹلمنٹ کی طرف لے جائے۔
پاکستانیوں کے لیے یہی بہترین قدم ہوگا۔
نسیم زہرہ معروف ٹی وی اینکر، سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔