پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے بیشتر لوگ ایک ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور یہ دباؤ ہے ملک میں انٹرنیٹ کی سست ترین رفتار کا، انٹرنیٹ کی سستی نے جہاں سماجی رابطوں میں خلل ڈالا ہے وہیں آن لائن بزنس کرنے والوں کے کام بھی کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے بھی کچھ ایسے ہی لوگوں سے بات چیت کی جن کی روزی روٹی کا دارومدار انٹرنیٹ کے ارد گرد گھومتا ہے۔
ان میں سے ایک ایسی خاتون سے بات کی جو سست انٹرنیٹ کے سبب کاروباری نقصان کے دباؤ کی وجہ سے اس وقت ہسپتال میں داخل ہیں۔
چونکہ ان کے خاندان والوں کو یہ نہیں معلوم کہ وہ ہسپتال میں ذہنی دباؤ کے سبب داخل ہیں اس لیے ہم ان کی درخواست پر یہاں ان کا نام اور ان کی کمپنی کا نام ظاہر نہیں کر رہے۔
مذکورہ خاتون گذشتہ کئی برسوں سے ڈیجیٹل مارکیٹنگ کا کام کر رہی ہیں اور فری لانسر کے طور پر بین الاقوامی سطح پر ٹیم آؤٹ سورسنگ کرتی ہیں اور آن لائن مختلف فری لانسنگ پلیٹ فارمزکے ذریعے کام کرتی ہیں۔
مذکورہ خاتون نے بتایا کہ ان کا کام ’ٹاسک بیسڈ ہوتا ہے جو آرڈر آتا ہے وہ ہم ڈیلیور کرتے ہیں اور اس کا معاوضہ ہمیں مل جاتا ہے۔ بعض اوقات بڑے پراجیکٹ بھی ہوتے ہیں جن میں ہمیں ایک گھنٹے کے حساب سے پیسے ملتے ہیں ہم کام دیتے جاتے ہیں اور ہمیں پیسے ملتے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا سارا کام مکمل طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے ہوتا ہے اور مختلف سماجی رابطوں کی سائٹس پر سارا کام کانٹینٹ بیسڈ ہوتا ہے اور یوٹیوب کے لیے ہمارے پاس ویڈیوز کا کام بھی آتا ہے جو بہت بھاری ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایک پراجیکٹ کا سائز گیگا بائٹس میں ہوتا ہے اور انٹرنیٹ کے نہ ہونے کی وجہ سے کلائنٹ جو ویڈیو ہمیں بھیجتے ہیں ہم انہیں ڈاؤن لوڈ ہی نہیں کر پاتے۔
’دوسری طرف اگر ہم نے ویڈیو ایڈٹ کر کے واپس کلائنٹ کو بھیجنی ہو تو بھی انٹرنیٹ کی سستی کی وجہ سے فائلز اپ لوڈ بھی نہیں ہو پاتیں۔
’مارکیٹنگ کے لیے کمپینز ڈیزائن ہوتی ہیں، کلائنٹ ہمیں ڈیٹا بھیجتے ہیں ہم اپروول کے لیے انہیں واپس بھجتے ہیں لیکن آج کل یہ ڈیٹا بھی ٹرانسفر نہیں ہو پا رہا۔
’ہمارا سارا کام کلاؤڈ بیسڈ ہے اسی پر لاگ ان کر کے کام کرنا ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر آپ سٹاک امیجز ہی دیکھ لیں تو ان میں کلاؤڈ سے امیج ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرنا ہوتا ہے لیکن وہ ویب سائٹ ہی لوڈ نہیں ہوتی۔‘
فری لانسر نے بتایا کہ ’اس سے پہلے ایکس (ٹوئٹر) پر پابندی لگائی گئی۔ ایکس پر ایڈ پروموشنز ہوتی ہیں لیکن پابندی کی وجہ سے ہمارا ایکس کا سارا کام پہلے سے ہی بند ہو چکا ہے کیونکہ اگر اس کے لیے ہم وی پی این آن کریں تو ہمارا باقی انٹرنیٹ چلنا بند ہو جاتا ہے۔ اس لیے اب ہم ایکس پر کام ہی نہیں کر رہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق: ’یوٹیوب کے کام میں بھی انٹرنیٹ سست ہونے کی وجہ سے ہم نے اپنے ایڈینٹنگ کے کام کو انتہائی کم کر دیا ہے۔
’اس کے علاوہ ہم جب ای کامرس کا کام کرتے ہیں تو اس میں ہماری کسٹمر سپورٹ ہر وقت آن ہونی چاہیے۔ ہماری ٹیم مسلسل بیٹھ کر چیٹ سپورٹ فراہم کر رہی ہوتی ہے یا کال سینٹرکے ذریعے بین الاقوامی کلائنٹس کو ہم کسٹمر سپورٹ فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔
’لیکن انٹرنیٹ کی وجہ سے کال سینٹر کا کام انتہائی متاثر ہوا ہے کیونکہ آپ کا انٹرنیٹ بند ہو اور باہر کے کلائنٹ کی کال کوئی اٹھائے نہ تو کیا ہو گا۔ کال سینٹرز کے کلائنٹس پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح ہم نے کلائنٹس کے ساتھ زوم یا میٹنگز پر ویڈیو کالز کے ذریعے بات کرنی ہوتی ہے۔ ہم جب کیمرہ آن کرتے ہیں تو انٹرنیٹ مزید سست ہو جاتا ہے۔
’ساری سکرینز آف کروا کر ہم ایک سکرین پر ویڈیو کال آن کرتے ہیں جس پر کلائنٹ کوایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہم کہیں گھر سے بات کر رہے ہیں یا ہم انہیں دھوکا دے رہے ہیں کیونکہ انہیں دفتر کا احساس نہیں دے پاتے۔
’اگر ہم اپنے کلائنٹ کو یہ کہہ دیں کہ ہمیں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں تو یہ خود کشی ہو گی کیونکہ ہمارے کام میں انٹرنیٹ ہی نہیں چلتا تو ہمارے ساتھ کون کام کرے گا؟‘
انہوں نے بتایا کہ ’انٹرنیٹ کی سست روی سے ہماری معیشت پر انتہائی برا اثر پڑا ہے۔ جو بھی فری لانسر کام کر رہا ہوتا ہے تو فری لانسنگ پلیٹ فارمز پر ان کے نام کے ساتھ ان کے ملک کا نام اور بیج جا رہا ہوتا ہے۔
’پاکستان میں بھی انٹرنیٹ کی سپیڈ سست ہونے کے سبب جتنے بھی فری لانسرز مختلف پلیٹ فارمز پرکام کر رہے تھے جیسے فائیور کی بات کریں تو انہوں نے وہاں پاکستانی فری لانسرز کے ساتھ ایک فلیگ لگا دیا ہے کہ یہ پاکستان سے کام کر رہے ہیں جہاں انٹرنیٹ کے مسائل ہیں ان کے ساتھ جو بھی کام کرے گا وہ اس کام کا خود ذمہ دار ہوگا ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انہی وجوہات کی بنیاد پر انہیں اپنے دفتر کے کچھ ملازمین کو نہ چاہتے ہوئے بھی فارغ کرنا پڑا۔
’انٹرنیٹ کی سپیڈ رات میں کچھ بہتر ہوتی ہے اس لیے صبح چار بجے تک کی ایک شفٹ شامل کی جس کی وجہ سے میں خود نیند کی کمی اور بڑھتے معاشی مسائل اور ذہنی دباؤ کی وجہ سے بیمار پڑگئی ہوں۔‘
ڈیجیٹل آنٹرپرینیور اور آن لائن سروسز مہیا کرنے والے شہزاد خان بھی اس وقت انٹرنیٹ کی سست روی کے سبب مشکلات سے دوچار ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے شہزاد نے بتایا کہ ان کا کاروبارانٹرنیٹ میں سست رفتاری کی وجہ سے براہ راست متاثر ہوا ہے۔
’میرا ٹوئٹر پر ایک ذاتی برانڈ تھا جہاں میں اپنی مہارت کے بارے میں بات کرتا تھا، اپنے علم کو ایسے لوگوں اور کاروباروں کے ساتھ شیئر کرتا تھا جومجھ تک پہنچیں اور مجھے کام دیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سات مختلف کاروبار براہ راست مجھ سے کال بک کرتے تھے اور جب میں ایکٹو ہوتا تھا تو مجھ سے کام کرواتے تھے، لیکن اب ٹوئٹر نے میرے اکاؤنٹ کو جھنڈا لگا دیا ہے اور وہ اب مجھے لاگ ان نہیں ہونے دیں گے کیونکہ میں وی پی این استعمال کرتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’وی پی این آپ کے مقام کو تبدیل کرتا رہتا ہے جس کی وجہ سے آپ کا اکاؤنٹ مشکوک ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میں اپنے اکاؤنٹ کی تصدیق کے لیے ٹویٹر کو ماہانہ دو سے تین ہزار روپے ادا کرتا تھا۔ وہ بھی رائیگاں گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں نے ٹوئٹر اور کلائنٹس حاصل کرنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے ایک کوچ کو پانچ ہزار ڈالر ادا کیا وہ بھی ضائع ہو گئے۔‘
شہزاد کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کی کمی کی وجہ سے ان کے دیگر کاروبار کو بھی براہ راست نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ فروخت کے لیے اشتہارات چلاتے ہیں۔ لوگ خریدتے ہیں اور ہم ان کی طلب کو پورا کرتے ہیں لیکن جب انٹرنیٹ میں خلل پڑتا ہے، تو ان اشتہارات کی کارکردگی گر جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں آمدنی کا براہ راست نقصان ہوتا ہے۔‘
انہوں نے اس پر مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جو رقم میں اشتہارات پر خرچ کرتا ہوں اس پر حکومت کی جانب سے20 سے 30 فیصد ٹیکس لگا دیا ہےاگر میں روزانہ ایک لاکھ روپے خرچ کرتا ہوں تو صرف ٹیکس کی مد میں مجھے چھ لاکھ نوے ہزار روپے دینا ہوں گےاور یہ براہ راست میرے منافع کو کھا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہزاد نے بتایا کہ ان کے اور ساتھی بھی اس انٹرنیٹ کے مسئلے سے دوچار ہو کر انتہائی متاثر ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق ’جو لوگ جو فری لانس پلیٹ فارمز جیسے فائیور، اپ ورک وغیرہ کے ذریعے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں وہ اپنے اکاؤنٹس کھو رہے ہیں کیونکہ انہیں VPN استعمال کرنا پڑتا ہے۔ وی پی این کا استعمال ایک مجبوری ہے۔
’کیونکہ انہیں وہ کام پورا کرنا ہوتا ہے جس کا انہوں نے کلائنٹ سے وعدہ کیا تھا۔ اور جیسے میں نے پہلے کہا تھا کہ VPN اپنا مقام تبدیل کرتا ہے جس کی وجہ سے ویب سائٹ یہ مانتی ہے کہ اکاؤنٹس مشکوک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہ ’اپنی برسوں کی محنت کو اس طرح ضائع ہوتے دیکھنا بہت مشکل ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے ویزہ کنسلٹنٹ کا کام کرنے والے بلال اسلم سے بھی بات کی، ان کا بھی کہنا تھا کہ ’انٹرنیٹ کی بندش اور سست رفتاری کی وجہ سے ٹریول اور آن لائن ایجوکیشن انڈسٹری بھی متاثر ہوئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آپ کے ویزہ ایپلی کشن فارمز آن لائن بھرے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے برطانیہ کے لیے وزٹ ویزہ کے حصول کے لیے فارم بھرنا ہے تو وہ پورا فارم پہلے ڈاؤن لوڈ ہونا ہے پھر اپ لوڈ بھی ہونا ہے۔
’اس دوران ربط ٹوٹنا نہیں چاہیے ورنہ آپ کی دی گئی معلومات محفوظ نہیں ہوں گی اور آپ کو دوبارہ سے فارم بھرنا پڑے گا، تو جو کام ایک دن میں ہونا تھا وہ تین سے چار دن میں مکمل ہو گا اور یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔‘
آن لائن ایجوکیشن انڈسٹری کے حوالے سے بلال کا کہنا تھا کہ ’اس میں آپ کی لائیو کلاسسز اورلائیو ہی امتحان ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ نہیں ہو گا تو نہ طالب علم آن لائن وہ کلاسز لے پائیں گے نہ امتحان دے سکیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے ماہانہ 30 سے 35 طالب علم اس مسئلے سے دوچار ہو رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ تعلیمی امتحانات آن لائن دے رہے ہیں اور درمیان میں انٹرنیٹ بند ہو جائے تو وہ کیسے مکمل ہو گا؟ یونیورسٹی والوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے امتحان پورا نہیں ہوا۔
’بین الاقوامی یونیورسٹیز یہ بھی کرتی ہیں کہ وہ ایڈ میشن کے لیے آن لائن انٹرویز بھی کرتی ہیں طالب علم ایک دو ماہ اس کریڈبیلیٹی انٹرویو کی تیاری کرتے ہیں اور جب انٹرویو کی باری آتی ہے تو انٹرنیٹ ہی نہیں چل رہا یا درمیان میں راستے میں بند ہو گیا ہے تو آپ کا انٹرویو تو گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس چیز کو یونیورسٹیز کسی بھی طرح لے سکتی ہیں کی طالب علم انٹرویو دینے میں آرام دہ نہیں تھا یا اسے آتا نہیں تھا اسی لیے وہ درمیان میں چھوڑ کر چلا گیا اور انٹرنیٹ کا بہانہ بنا دیا اور اس کے بعد وہ انٹرویو دوبارہ کب لیں گے یہ کہنا مشکل ہو گا۔
’اسی طرح سٹدی ویزہ کے لیے بھی امبیسیز آن لائن انٹرویوز کرتی ہیں جس میں وہ ایک ایک چیز کا دھیان رکھتے ہیں کہ آپ نے آنکھیں نیچی تو نہیں کیں ہیں کسی کتاب کی طرف تو نہیں دیکھ رہے اور اگر انٹرنیٹ کی وجہ سے آف لائن ہو جاتے ہیں تو یہ ان کو شک میں ڈال دیتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ انٹرنیٹ کو مستقبل میں داخل ہونے کے ذریعے کے طور پر دیکھ رہے تھے لیکن اب پاکستان میں یہ سوچ بدل رہی ہے۔ میرے پاس بہت سے لوگ ڈیجیٹل نومیڈ ویزا لے کر ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں تاکہ وہ کسی اور ملک میں بیٹھ کر کام کر سکیں۔‘
پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن نے بھی انٹرنیٹ کے مسائل پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور اپنی آفیشل ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ’ایسوسی ایشن عجلت میں نافذ کیے گئے قومی فائر وال کے سنگین نتائج کی مذمت کرتی ہے۔‘
’تیزی سے بڑھتی ہوئی آئی ٹی انڈسٹری کو ایک تباہی کا سامنا ہے، جو بے مثال آپریشنل رکاوٹوں سے دوچار ہے جس سے پاکستان کے بڑھتے ہوئے ٹیک سیکٹر کی بنیادوں کو خطرہ ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان کا بدھ کو کہنا تھا کہ ان کا محکمہ حکومت کی ہدایت پر ملک میں انٹرنیٹ فائر وال پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سب میرین کیبل کی خرابی کو قرار دیا اور کہا کہ ’زیر آب ایک کیبل سے 7.5 ٹیرابائٹ کا انٹرنیٹ ڈیٹا منتقل ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسی سات کیبلز آتی ہیں، جن میں سے ایک خراب ہے۔
’ایسی صورت حال میں وی پی این استعمال کرنے سے انٹرنیٹ ڈاؤن ہوا۔ 27 اگست تک یہ کیبل ٹھیک ہو جائے گی۔‘