پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے بدھ کو کہا کہ ان کا محکمہ حکومت کی ہدایت پر ملک میں انٹرنیٹ فائر وال پر کام کر رہا ہے۔
ملک میں انٹرنیٹ میں خلل، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس تک رسائی میں مشکلات اور فائر وال کی تنصیب سے متعلق آج سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے اجلاس میں حفیظ الرحمان نے کہا ’وفاقی حکومت نے فائر وال لگانے کا حکم دیا ہے، پی ٹی اے اس پر عمل کر رہا ہے اور فائر وال ہم چلا رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فائر وال سے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا نہیں روکا جا سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت سوشل میڈیا پر کتنے لوگوں کی میمز چل رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی، ججز کی، ہر بندے کی چل رہی ہیں۔ اگر اتنا مینیج ہوتا تو بند کر دیتے۔ کر سکتے ہیں آپ؟‘
’انٹرنیٹ کی سس روی کی وجہ کیبل کی خرابی‘
انہوں نے ملک میں انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ سب میرین کیبل کی خرابی کو قرار دیا۔
انہوں نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ زیر آب ایک کیبل سے 7.5 ٹیرابائٹ کا انٹرنیٹ ڈیٹا منتقل ہوتا ہے اور پاکستان میں ایسی سات کیبلز آتی ہیں جن میں سے ایک خراب ہے۔ ’ایسی صورت حال میں وی پی این استعمال کرنے سے انٹرنیٹ ڈاؤن ہوا۔‘
’سب میرین کنسورشیم نے آگاہ کیا ہے کہ سب میرین کیبل میں فالٹ کی وجہ سے انٹرنیٹ متاثر ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ 27 اگست تک یہ کیبل ٹھیک ہو جائے گی۔
کمیٹی کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے سوال کیا ’کیا دنیا میں دیگر ممالک میں بھی زیر سمندر کیبل متاثر ہے یا صرف پاکستان کی کیبل متاثر ہے؟‘ اس پر حفیظ الرحمن نے جواب دیا کہ پاکستان کی سب میرین کیبل متاثر ہے۔
اس دوران کمیٹی ارکان نے سوال کیا کہ ’کیا وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے؟‘ چیئرمین پی ٹی اے نے اس پر قانون سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ افسر کو بلایا لیا۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ ٹیلی کام سیکٹر کو چھ روز میں 30 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ ’ہم نے جاز اور زونگ سمیت تمام کمپنیوں کے سی ای اوز پر ایک کمیٹی بنائی، جس نے اخذ کیا کہ کسی سطح پر کوئی خرابی یا مسئلہ نہیں۔‘
حفیظ الرحمن نے فائر وال کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا ہر ملک نے اپنا ایک سسٹم لگایا ہوا ہے۔ ’جب حکومت کہتی ہے کہ کوئی چیز انٹرنیٹ پر نہیں آنا چاہیے تو وہ کیا جاتا ہے۔ پی ٹی اے وفاقی حکومت، وزارت داخلہ یا عدالت سے ہدایات لیتی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’اگر سوشل میڈیا پر کوئی ویڈیو آتی ہے تو اس کا قانون کے مطابق موازنہ کیا جاتا ہے پھر ہٹانے کی ہدایات کی جاتی ہیں۔ 97 ہزار ایسی ویب سائٹس بلاک کی ہیں جس میں پورونوگرافی اور توہین آمیز مواد شامل ہے۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ ’2006 سے ویب مینیجمنٹ سسٹم موجود تھا جبکہ مارچ 2019 میں فائر وال کا نظام منظور ہوا۔ 2019 میں اس سسٹم کی اپ گریڈیشن شروع کی گئی، اسے پہلے ڈبلیو ایم ایس کہتے تھے، جسے مارچ 2019 میں نیشنل فائر وال سسٹم کا نام دیا گیا۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا اس سسٹم کو کہیں فائر وال یا کوئی اور نام دیا جاتا ہے، ہمارے ہاں اسے ویب مینیجمنٹ سسٹم کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’فائر وال کہیں یا انٹرنیٹ مانیٹرنگ سسٹم، کوئی نیا نظام نہیں آ رہا۔ یہ وہ نظام ہے جو پہلے سے موجود تھا اسے اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
’پی ٹی اے ویب مینیجمنٹ سسٹم کو اپ گریڈ کر رہا ہے، اسے آپ کوئی بھی نام دے دیں۔ دنیا میں وی پی این بند نہیں کیے جاتے، اس سے کاروبار متاثر ہوتے ہیں۔ وی پی این کو بند نہیں کیا جا رہا صرف رجسٹریشن کروانے کا کہا ہے۔‘
’ویب مینیجمنٹ سسٹم پی ٹی آئی دور حکومت میں لایا گیا‘
کمیٹی رکن اور پی ٹی آٹی کے رہنما عمر ایوب خان نے سوال کیا کہ اب اس سسٹم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ویب مینیجمنٹ سسٹم یا فائر وال سسٹم اگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور مواد کو متاثر کرتا ہے تو آپ تو بلاک کر دیں گے مگر اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ کیا انٹیلی جنس ایجنسی کے پاس قابلیت ہے کہ وہ خود مداخلت کر کے چیزوں کو بلاک کر دے؟
چیئرمین پی ٹی اے نے کہا ’آپ میری بات کی غلط تشریح کر رہے ہیں۔ یہ سسٹم آپ کے دور حکومت میں ہی لایا گیا تھا۔‘
اس پر عمر ایوب نے پوچھا ’کیا آپ کے پاس کابینہ کے منٹس موجود ہیں؟‘ اس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا ’وہ میرے پاس نہیں، وزارت آئی ٹی کے پاس ہوں گے۔ اکتوبر 2020 میں ایک خط نکلا کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے، آپ حکومت سے پوچھیں مجھے جو حکم ملے گا تو اس پر ہم عمل کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حفیظ الرحمن نے مزید کہا پی ٹی اے نے سندھ ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں بتایا کہ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) وزارت داخلہ کی ہدایت پر بلاک ہوا ہے۔
بعد ازاں قائمہ کمیٹی نے آئی ٹی کے شعبے میں نقصانات کا تخمینہ مانگتے ہوئے ’ممبر آئی ٹی، وزارت آئی ٹی کو آئندہ اجلاس میں مکمل نقصانات کا تخمینہ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
اجلاس کے دوران آئی ٹی وزارت کے رکن جنید امام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر میں زیادہ حصہ غیر دستاویزی ہے جس میں فری لانسرز بھی آتے ہیں۔
حفیظ الرحمن کے مطابق پیکا میں واضح ہے ہم سوشل میڈیا کو مینیج کرتے ہیں، پیکا ایکٹ مواد ہٹانے یا بند کرنے کی ہمیں اتھارٹی دیتا ہے۔
انہوں نے فائر وال سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے انکشاف کیا ’فائر وال ہم چلا رہے ہیں، وفاقی حکومت نے حکم دیا ہے فائر وال لگائی جائے پی ٹی اے عمل کر رہا ہے۔ فائر وال سے متعلق مکمل وضاحت وفاقی حکومت دے سکتی ہے۔
انہوں نے اجلاس کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’پاکستان میں کوئی نئی چیز نہیں۔ ویب مینیجمنٹ سسٹم کافی عرصے سے لگا ہوا ہے۔
’آئین میں لکھا ہوا ہے کہ آپ سوشل میڈیا کو کیسے بلاک کریں گے؟ وفاقی حکومت یا عدالت کا سوشل میڈیا سے متعلق (سوشل میڈیا کو بلاک کرنے کا)کوئی حکم آتا ہے تو اس کے لیے ایک سسٹم ہوتا ہے، اس کا نام ویب مینیجمنٹ سسٹم ہے۔ نام تبدیل کرنے سے یہ نہیں ہوگا کہ کوئی نئی چیز آ رہی ہے۔‘
اس سوال پر ’فائر وال، جسے آپ ویب مینجمنٹ سسٹم کہہ رہے ہیں، کی منظوری کب دی گئی تھی؟‘ پر انہوں نے کہا 90 کی دہائی میں اسے شروع کیا گیا جبکہ اس کی اپ گریڈیشن کی منظوری مارچ 2019 میں دی گئی تھی، سسٹم کی اپ گریڈیشن کرنا معمول ہے۔