پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی مفتی خاندان کی تیسری نسل کی رہنما، 37 سالہ التجا مفتی، انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی بجبہاڑہ اسمبلی کی نشست کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے التجا مفتی نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پیدا ہونے والے حالات پر شدید تنقید کی اور کہا کہ ’ہم آرٹیکل 370 کے لیے لڑیں گے اور لڑتے رہیں گے۔‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ہمیشہ کشمیر کے اس بڑے مسئلے کے حل کی بات کی ہے اور ہم صرف آرٹیکل 370 تک محدود نہیں رہیں گے۔‘
التجا مفتی نے 2019 میں اس وقت شہرت حاصل کی جب آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ان کی والدہ محبوبہ مفتی کو دیگر ہائی پروفائل سیاستدانوں کے ساتھ حراست میں لیا گیا۔ اس دوران، التجا اپنی والدہ کی میڈیا مشیر کے طور پر سامنے آئیں اور اننت ناگ-راجوری لوک سبھا سیٹ کے لیے ان کی مہم میں اہم کردار ادا کیا۔
التجا مفتی کا کہنا تھا کہ ’پارٹی نے انہیں جرات مندانہ آواز کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی پیشکش کی تاکہ آنے والے وقت میں اسمبلی مضبوط ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ پارٹی کا فیصلہ تھا اور محترمہ محبوبہ مفتی جی نے بھی توقع کی تھی کہ میں یہ الیکشن لڑوں کیونکہ اسمبلی پہلے ہی کمزور تھی۔‘
اس نشست سے ماضی میں دو سابق وزرائے اعلیٰ مفتی محمد سعید اور محبوبہ مفتی بھی منتخب ہوئے تھے، جس نے اس نشست کے سیاسی اور سماجی اثر و رسوخ کو خاص اہمیت دی ہے۔
التجا مفتی نے تسلیم کیا کہ کشمیر کی سیاست میں قدم رکھنا ایک مشکل کام ہے، لیکن ان کا عزم ہے کہ وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گی۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بہت مشکل سفر ہے، لیکن میں اپنی پوری کوشش کروں گی۔ اس کے بعد اللہ بہتر جانتا ہے۔‘
مفتی خاندان کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھانے کے اس مرحلے پر، التجا مفتی کی مہم نہ صرف ان کی ذاتی صلاحیتوں بلکہ پارٹی کی سیاسی ساکھ کا بھی امتحان ہے، جو 2015 میں بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے بعد سے کمزور پڑ گئی ہے۔
التجا کشمیر میں انڈیا کی پالیسیوں کی سخت مخالف کے طور پر جانی جاتی ہیں اور شہری آزادیوں اور سیاسی حقوق کی وکالت کرتی ہیں۔
بجبہاڑہ میں التجا کی انتخابی مہم مفتی خاندان کے اثر و رسوخ کا ایک اہم امتحان سمجھی جا رہی ہے۔ مفتی خاندان نے اس نشست کو تقریباً تین دہائیوں تک برقرار رکھا ہے۔ ان کی والدہ محبوبہ مفتی نے 1996 میں کانگریس کے ٹکٹ پر یہ نشست جیتی، اور بعد میں پی ڈی پی کے قیام کے بعد بھی انہوں نے اس کا دفاع کیا۔ مفتی محمد سعید، التجا کے دادا، نے بھی 1967 میں یہ نشست جیتی تھی۔
التجا کا کہنا ہے کہ بجبہاڑہ کے بہت سے لوگ مفتی محمد سعید مرحوم کے دور کی ترقی سے واقف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔
نوجوانوں کی شرکت اور مستقبل کے لیے عزم
التجا مفتی کے مطابق، ان کی انتخابی مہم میں نوجوانوں کی بھرپور شرکت دیکھنے کو مل رہی ہے، یہاں تک کہ نوعمر لڑکیاں، جو ووٹ ڈالنے کی عمر میں نہیں، وہ بھی ان کے جلسوں میں شامل ہوتی ہیں اور ان سے بے حد توقعات رکھتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’وہ روتی ہیں اور وہ میری طرف دیکھتی ہیں اس سے مجھے بے حد امید ملتی ہے، بزرگ جو مفتی صاحب کے دور میں تھے وہ بھی مجھے دیکھنے، ملنے آتے ہیں۔‘
التجا نے کہا کہ ’ہمارے نوجوان بے روزگاری اور معاشرتی مسائل جیسے منشیات کے استعمال پر بہت پریشان ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ نوجوانوں کو روزگار، تحفظ اور وقار کی فراہمی کو اپنی ترجیح بنائیں گی، اور یقین دہانی کرائیں گی کہ ان کا مستقبل محفوظ ہو۔
ان کی انتخابی مہم میں عوام کی شمولیت اور ان کی آواز کا سنا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک مثبت نقطہ نظر اور وژن کے ساتھ سیاست میں آئی ہیں۔
التجا مفتی پرامید ہیں کہ وہ اپنے نوجوان ووٹرز کی توقعات پر پورا اتریں گی اور کشمیر کی سیاست میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیاب ہوں گی۔