بنگلہ دیش کا سیاسی بحران اور آن لائن غلط معلومات

اگست میں بنگلہ دیش میں نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کے نئے عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے آن لائن ہندوتوا گروہوں کی طرف سے غلط معلومات پھیلانے کا سیلاب دیکھنے میں آیا۔

چھ جون 2015 کی اس تصویر میں سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو ڈھاکہ کے حضرت شاہ جلال بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اپنے ہندوستانی ہم منصب نریندر مودی کا استقبال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی / منیر الزماں)

آج کے ڈیجیٹل دور میں جھوٹ حقیقی خبروں سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور فوری توجہ حاصل کرتا ہے۔ غلط معلومات کی بنیاد پر مہم کے ذریعے، آن لائن کسی خاص کمیونٹی کے جذبات اور تعصبات کا فائدہ اٹھا کر مخصوص سماجی یا سیاسی واقعات کے بارے میں اثرانداز ہونے کی کوشش کی جاتی رہی ہیں۔

اسی سال اگست میں بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی اقتدار سے بے دخلی اور نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کے نئے عبوری سیٹ اپ کے سربراہ کے طور پر عہدہ سنبھالنے کے بعد آن لائن ہندوتوا گروہوں کی طرف سے غلط معلومات پھیلانے کا سیلاب دیکھنے میں آیا۔

ان معلومات کی منتقلی کے دوران سیاسی اور غیر یقینی صورت حال اس وقت پیدا ہوئی، جب پولیس طلبا مظاہرین پر تشدد اور گولی چلانے کے بعد ہڑتال پر چلی گئی۔ تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی صورت حال کی وجہ سے پیدا ہونے والی بدامنی نے لوگوں کو جعلی خبروں کا شکار بنا دیا۔

اس معلومات کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، آن لائن ہندوتوا گروہوں نے سنسنی خیز دعوے، جعلی تصاویر اور غیر متعلقہ واقعات کی پرانی ویڈیوز کو پھیلا کر بنگلہ دیش کی سیاسی بدامنی کو بھڑکانے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ دارم ایکس کا استعمال کیا۔

اس مہم نے نہ صرف بنگلہ دیش کی ہندو برادری کے لیے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا بلکہ نئے نگران سیٹ اپ کے لیے بھی چیلنجز پیدا کیے۔

شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد سیاسی اور معلوماتی خلا میں بنگلہ دیش میں ہندو ’نسل کشی‘ کا تاثر پیدا کرنے کے لیے حساس اور ناقابل تصدیق دعوے کیے اور سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر اور فوٹیجز کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔

برانڈ واچ نامی سوشل میڈیا مانیٹرنگ ٹول نے بنگلہ دیش میں سیاسی پیش رفت کے بارے میں غلط معلومات کی مہم اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کرنے والے زیادہ تر اکاؤنٹس کی جغرافیائی جگہ بھارت میں بتائی۔ اس کے علاوہ ہندوتوا بوٹس اور ٹرولز نے اشتعال انگیز پوسٹیں، من گھڑت تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے جھوٹا بیانیہ پھیلایا۔

جنوبی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی تناظر میں اپنے پڑوسیوں کے خلاف بھارتی غلط معلومات کی مہم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 2020 میں، یورپی یونین کی ڈس انفو نے پاکستان کے خلاف 15 سالہ ڈس انفارمیشن مہم کا سراغ لگایا، جسے ماہرین نے انڈین کرانیکلز کا عنوان دیا تھا۔

اس نے بھارتی مفادات کو فروغ دینے کے لیے 119 ممالک میں 750 جعلی میڈیا اداروں کے ذریعے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی اداروں اور حکومتوں کو ورغلانے کی کوشش کی۔

سب سے بڑی مذہبی اقلیت کے طور پر مسلم اکثریتی بنگلہ دیش میں 170 ملین آبادی کا آٹھ فیصد ہندو ہیں۔ تاریخی طور پر بنگلہ دیش کی ہندو برادری نے شیخ حسینہ کی پارٹی کی حمایت سیکولر ہونے کی بنیاد پر کی اور اسے ملک میں اپنی مذہبی آزادی اور فرقہ وارانہ مفادات کے محافظ کے طور پر دیکھا ہے۔

حسینہ کی برطرفی کے فوراً بعد 52 اضلاع میں بنگلہ دیشی ہندوؤں کے خلاف 500 حملوں کے غیر تصدیق شدہ دعوے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیل گئے، جن میں سے اکثر کو کچھ مرکزی دھارے کے بھارتی نیوز چینلز نے بھی نشر کیا۔

حسینہ کی سرکار جنوبی ایشیا میں انڈیا کی اتحادی کے طور پر جانی جاتی تھی اور ہندوتوا گروہوں نے حسینہ کے اقتدار کے خاتمہ کو سٹریٹیجک زوال کے طور پر دیکھا۔ اپنے 15 سالہ دور حکومت میں حسینہ حکومت نے خود کو بنگلہ دیش میں ہندو اور انڈین مفادات کے محافظ کے طور پر پیش کیا۔

یہی وجہ ہے کہ ہندوتوا گروپوں نے یہ تصور پیدا کرنے کے لیے ایک پرجوش پروپیگنڈا مہم چلائی کہ حسینہ کے بعد کے بنگلہ دیش میں، ’اسلام پسند‘ ہندوؤں کو مارنے کی کوشش کریں گے اور غلط نسل پرستانہ معلومات سے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ بنگلہ دیش کو اب بھی حسینہ کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ملک ایک نام نہاد اسلامی ریاست بن جائے گا۔

ایک طرف اس مہم کو چلانے والوں نے غیر یقینی سیاسی ماحول کے درمیان بنگلہ دیش کی ہندو برادری کے اندر خوف کو بڑھایا تو دوسری طرف انہوں نے نگراں حکومت کے لیے نئے چیلنجز پیدا کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زیادہ تر غلط معلومات کی مہم ایکس کے ذریعہ چلائی گئی۔ اس کے بعد قابل ذکر انڈین ایکس اکاؤنٹس، بشمول سوشل میڈیا شخصیات ان بیانیوں کو وسیع تر گردش اور پھیلاؤ کے لیے شیئر کرتے رہے۔ ان میں سے کچھ اکاؤنٹس اپنے سائز اور رسائی میں کافی بڑے ہیں۔ بعد میں فیس بک جیسے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہندوتوا اکاؤنٹس نے بھی بنگلہ دیش میں ہندو حملوں کی طرف توجہ مبذول کرنے کے لیے ان غلط معلومات کی مہم چلائی-

#HindusAreNotSafeinBangladesh، #SaveHindusinBangladesh، #HindusUnderAttack اور #allEyesOnBangladeshiHindus جیسے ہیش ٹیگز کا افواہیں پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان ہیش ٹیگز کے ذریعہ شیئر کی گئی کچھ ویڈیوز اور تصاویر لاکھوں لائکس اور ری پوسٹ کے ساتھ وائرل ہو گئیں۔

غیر یقینی سیاسی حالات میں بدنیتی پر مبنی غلط معلومات کی مہمات نہ صرف حقیقی دنیا کو نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ سوشل میڈیا اور بڑی ٹیک کمپنیوں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچاتی ہیں۔

حال ہی میں، فرانس میں ٹیلی گرام کے بانی پاول دوروف کی گرفتاری مختلف سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ حکومتوں کی بڑھتی ہوئی مایوسی کو واضح کرتی ہے، جن کے پلیٹ فارمز کو غیر مستحکم کرنے والے آلات کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹیک کمپنیاں کو مقامی مواد کے ماڈریٹرز اور مختلف علاقائی ممالک کی سیاسی اور سماجی معلومات رکھنے والی تنظیموں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

آخر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی اور فرقہ وارانہ حالات میں گمراہ کن مواد پر انتباہی لیبلز شامل کرنا کافی نہیں ہو گا۔ ایسے مواد کو ہٹانا یا بلاک کیا جانا چاہیے تاکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے غلط استعمال سے بچا جا سکے۔ 

مصنف ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ @baistresearcher.

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر