انتظامیہ اور عدلیہ کا ٹکراؤ: اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

اگرچہ مجوزہ ترامیم کا متن سامنے نہیں آیا تاہم میڈیا کو افشا ہونے والی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں طاقت کے توازن کو نمایاں طور پر انتظامیہ کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تین مارچ 2024 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے باہر میڈیا کے اراکین اور سرکاری اہلکار اجلاس سے قبل موجود ہیں (اے ایف پی)

انتظامیہ اور عدلیہ کسی بھی حکومت کے دو اہم ستون ہوتے ہیں، جن کے درمیان ٹکراؤ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں معمول کا معاملہ ہے۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کے اختیارات کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کرتی ہے جب کہ بعض اوقات عدالتیں بھی ان اقدامات میں خلل ڈالتی ہیں جن کو وہ غیر آئینی سمجھیں۔ انتظامیہ عام طور پر عدالتی اعتراضات کو دور کرنے کے لیے آئینی ترمیم کے ساتھ جوابی وار کرتی ہے۔

پانچ فروری 1937 کو امریکی ڈیموکریٹ صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے جوڈیشل پروسیجرز ریفارم بل متعارف کروا کر امریکی عدلیہ کو ہلا دیا تھا، جس کے تحت انہوں نے سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں کو ریٹائر کرنے کی سفارش کی جو ریٹائرمنٹ کی عمر کو 70 سال تک بڑھا کر اپنے من پسند فیصلوں کے لیے عدلیہ سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔

اس سے قبل امریکی سپریم کورٹ اور خاص طور پر ان چھ ججوں نے صدر روزویلٹ انتظامیہ کے عظیم کساد بازاری سے لڑنے کے لیے متعارف کرائے گئے ’نیو ڈیل‘ پروگرام کے متعدد اہم منصوبوں کو روک دیا تھا۔

اگرچہ جوڈیشل پروسیجرز ریفارم بل منظور نہیں ہوا لیکن امریکی سپریم کورٹ بل کے متعارف ہونے کے بعد بہت دوستانہ ہو گئی اور اس نے فرینکلن ڈی روزویلٹ کے منصوبوں کی مزاحمت نہیں کی۔

برطانیہ میں بھی لیبر انتظامیہ کو عدلیہ کے ساتھ مختلف محاذوں پر لڑائیاں لڑنی پڑیں جن میں زیادہ تر حکومت کی جانب سے 1998 میں دہشت گردی کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد کے ساتھ سلوک کے حوالے سے متعارف کروائے گئے انسانی حقوق کے قانون کے نفاذ کے بعد دیکھی گئیں۔ برطانوی عدالت عظمیٰ نے دہشت گردی کے الزام کا سامنا کرنے والے افراد کو ملک بدر کرنے کے کئی انتظامی احکامات کو روک دیا۔

انڈیا میں بھی وزیراعظم اندرا گاندھی کے انتخاب کو 1975 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے رد کر دیا تھا۔ وزیراعظم نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کر دی، جس نے عدلیہ کے اختیارات کو کم کر دیا۔

اس سے قبل 1951 میں پٹنہ ہائی کورٹ نے بہار لینڈ ریفارمز ایکٹ کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد مرکز میں نہرو حکومت کو پہلی آئینی ترمیم منظور کر کے اس قانون کو استثنیٰ دینا پڑا تھا۔

عدلیہ نے 1970 میں انڈیا کی سابقہ ​​شاہی ریاستوں کے حکمرانوں کے پرائیوی پرس (ذاتی خزانہ) رکھنے کی توثیق کو بھی برقرار رکھا، جسے قبل ازیں انڈین صدر نے ضبط کر لیا تھا۔ بالآخر حکومت نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرکے اس عدالتی چیلنج پر قابو پایا۔

پاکستان میں اس وقت پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے ایک شدید جنگ جاری ہے۔ ان کوششوں کی اہم کڑی ایک آئینی ترمیم ہے جسے مخلوط حکومت پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

لیکن اب اس ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پہلی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ نے اپنے اختیار کو زیادہ شدت کے ساتھ بیان کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے حکومت اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ غیر آرام دہ محسوس کر رہی ہے۔ دوسری وجہ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان حال ہی میں غیر معمولی انتشار کے شکار تعلقات ہیں۔

عدلیہ کے جارحانہ طرزِ عمل کی تازہ ترین مثال اس وقت سامنے آئی جب رواں سال سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے متنازع بیانات کے لیے مشہور جج جسٹس شوکت صدیقی کو بحال کر دیا۔

جسٹس صدیقی کو 2018 میں اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب انہوں نے عوامی طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں پر اپنے من پسند فیصلوں کے لیے ججوں پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس صدیقی کی بحالی سے مزید چھ ججوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی جنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ اپنے من پسند فیصلوں کے لیے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس خط نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا اور مزید ججوں نے اپنے ایسے ہی تلخ تجربات بیان کرنے شروع کر دیے جس کی عوام، بار ایسوسی ایشنز اور سول سوسائٹی کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔

جب انتظامیہ کو دفاعی انداز اپنانے پر مجبور ہونا پڑا تو ججوں نے جرات مندانہ فیصلے لینے شروع کر دیے جس کی مثال سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف قائم مختلف مقدمات میں کیے گئے فیصلے ہیں، جس سے حکومت کو مزید گھبراہٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اہم نکتہ اس وقت سامنے آیا جب رواں سال جولائی میں سپریم کورٹ کے ایک اکثریتی فیصلے میں پی ٹی آئی کو اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلموں کے لیے 77 مخصوص نشستیں مختص کر دی گئیں، جنہیں پہلے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا تھا تاہم قابل ذکر بات یہ ہے کہ چیف جسٹس اس کیس میں ججوں کی اکثریت کی حمایت کھو بیٹھے۔

پارلیمنٹ نے سب سے پہلے ایک قانون پاس کر کے عدالت کے اس فیصلے کا جواب دیا، جس سے سپریم کورٹ کا فیصلہ غیر موثر ہو گیا اور بعد میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان طاقت کو دوبارہ متوازن کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی کوششیں شروع کر دیں۔

اگرچہ حالیہ مجوزہ ترامیم کا متن سامنے نہیں آیا تاہم میڈیا کو افشا ہونے والی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں طاقت کے توازن کو نمایاں طور پر انتظامیہ کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ترامیم میں سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ ایک زیادہ طاقتور وفاقی آئینی عدالت بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ترمیم میں سینیئر ترین جج کی بطور چیف جسٹس تقرری کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی تجویز ہے، جس کے تحت حکومت پانچ سینیئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس کے طور پر منتخب کرے گی۔

مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کرنے کے لیے منظور کیا گیا قانون اور مجوزہ آئینی ترمیم، اگر منظور ہو جاتی ہے تو عدلیہ کی طرف سے اس کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا، جس سے دونوں اداروں کے درمیان شدید تصادم کا خدشہ ہو گا۔ مجوزہ ترامیم منظور ہو جاتی ہیں تو سپریم کورٹ کے کچھ سینیئر ترین ججوں کے چیف جسٹس بننے کے امکانات کو ختم ہو جائیں گے، جو اسے قانونی جنگ سے ذاتی کھیل بنا دے گی۔

مصنف احمد بلال محبوب پاکستانی تھنک ٹینک پلڈاٹ کے صدر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ