افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے ملک بھر میں حالیہ حملوں میں ملوث ’داعش کے اہم ارکان‘ کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے پاکستان پر اس تنظیم کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال میں عمومی طور پر بہتری آئی ہے تاہم داعش کی علاقائی شاخ ’دولت اسلامیہ خراسان‘ ان کی حکمرانی کے لیے اہم چیلنج بن کر ابھری ہے جنہوں نے رواں سال موسم گرما میں کئی مہلک حملے کیے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کی ’سپیشل فورسز‘ نے ’باغی گروپ‘ (داعش) کے اہم ارکان کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے گذشتہ ماہ کابل میں ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی جس میں چھ افراد مارے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مبینہ خودکش حملہ آور پاکستان میں تربیتی کیمپ سے ٹریننگ لے کر ’افغانستان میں داخل ہوئے‘ جب کہ معتدد چھاپوں میں گرفتار کیے گئے دیگر افراد بھی حال ہی میں ’پاکستان سے واپس آئے تھے۔‘
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ان کے کریک ڈاؤن سے داعش گروپ کو افغانستان سے بے دخل کر دیا گیا ہے لیکن انہوں نے پاکستان میں ’نئے آپریشنل اڈے اور تربیتی کیمپ قائم کر لیے ہیں۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’ان نئے اڈوں سے وہ افغانستان کے اندر اور دوسرے ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے ان تبصروں سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے، جو افغان طالبان کی واپسی کے بعد سے متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان اپنی سرزمین پر بڑھتے ہوئے حملوں کا الزام افغانستان پر عائد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ طالبان کی حکومت وہاں مقیم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ذبیح مجاہد کے بیان پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔
پاکستان، چین، ایران اور روس نے گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں ’افغانستان میں دہشت گردی اور سکیورٹی کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔‘
اس چار فریقی گروپ نے داعش اور ٹی ٹی پی سمیت کئی عسکریت پسند گروہوں کا ذکر کیا، جو افغانستان میں مقیم ہیں اور علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
داعش خراسان کی بنیاد 2015 میں رکھی گئی تھی اور یہ اگست 2021 میں کابل ایئرپورٹ سے امریکہ کے انخلا کے دوران ہونے والے ایک بم دھماکے سے منظر عام پر آئی، جس میں تقریباً 170 افغان اور 13 امریکی فوجی مارے گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ گروپ مزید بین الاقوامی حملوں کا ذمہ دار ہے، جس میں ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال میں 140 سے زیادہ افراد کی اموات اور ایران میں دو بم دھماکے بھی شامل ہیں۔