تاریخ دینے کے باوجود پی آئی اے کی نیلامی کے عمل میں تاخیر کیوں؟

وزارت نجکاری کے ترجمان احسن اسحاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’پاکستان بین الاقوامی ایئرلائنز کی نجکاری کے لیے بڈنگ کو 31 اکتوبر تک ری شیڈول کر دیا گیا ہے۔‘ تاہم ترجمان نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

اسلام آباد میں 10 اکتوبر 2012 کو پی آئی اے کے طیارے ایئرپورٹ پر موجود ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان بین الاقوامی ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نیلامی کے لیے بولی لگانے کے عمل میں 30 دن کی تاخیر ہوئی ہے۔

گزشتہ روز رات گئے اپنے بیان میں اس تاخیر کی وجہ انہوں نے ممکنہ بولی دہندگان کا ایئر لائن کا اندازہ لگانے کے لیے ’مزید معلومات اور وقت مانگنا‘ بتائی ہے۔

لیکن نجکاری کے اس عمل میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس کی وجہ جاننے کے لیے مختلف حکومتی عہدے داران اور ماہرین سے بات کی ہے۔

وزارت نجکاری کے ترجمان احسن اسحاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’پاکستان بین الاقوامی ایئرلائنز کی نجکاری کے لیے بڈنگ کو 31 اکتوبر تک ری شیڈول کر دیا گیا ہے۔‘ تاہم ترجمان نے اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔

دوسری جانب وزارت نجکاری کے عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ نجکاری کے عمل میں تاخیر بنیادی طور پر بولی دہندگان کی وجہ سے کی گئی ہے، لیکن اس میں تاخیر کچھ زیر التوا مسائل کی وجہ سے بھی ہوئی ہے، جن میں شیئرز کی پرسنٹیج، ملازمین سے متعلق شرائط، اور ٹیکس کی مراعات جیسی شرائط شامل ہیں۔

عہدے دار نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے شیئرز کا فیصد 60 ہے جبکہ بولی دہندگان زیادہ فیصد چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ بولی دہندگان ٹکٹوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) پر ٹیکس میں رعایت چاہتے ہیں۔ ’حکومت پی آئی اے کے ملازمین کو اگلے تین برس کے لیے انہی شرائط پر رکھنا چاہتی ہے، جبکہ بیشتر بولی دہندگان اس سے متفق نہیں ہیں۔ کچھ چاہتے ہیں کہ یہ مدت کم کرکے چھ ماہ کی جائے، جبکہ کچھ انہیں کانٹریکٹ پر رکھنا چاہتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ نجکاری کمیشن نے ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو شارٹ لسٹ کیا تھا، جن میں فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ، ایئر بلیو لمیٹڈ، پاک ایتھانول پرائیویٹ لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ، اور بلیو ورلڈ سٹی شامل ہیں۔

بلیو ورلڈ سٹی کے چیئرمین سعد نذیر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چونکہ حکومت کی جانب سے بولی میں حصہ لینے والی کمپنیوں نے دستاویزات جمع کروانے کی آخری تاریخ 25 ستمبر تھی، لہٰذا صرف ان کی کمپنی نے یہ دستاویزات جمع کروائے تھے۔ ’ہم 26 ستمبر کو نجکاری کمیشن سے بولی کی رقم جمع کروانے کی اجازت مانگتے رہے، جس سے ہمیں منع کیا جاتا رہا۔‘

سعد نذیر نے کہا کہ ’ہمیں بتایا گیا کہ کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں، جس پر ہمیں حیرت ہوئی۔ مقررہ تاریخ گزر جانے کے بعد اچانک تاریخ میں توسیع کا اعلان کر دیا گیا۔ جن کمپنیوں نے کوائف جمع نہیں کروائے، انہیں ڈس کوالیفائی کرنا چاہیے تھا۔‘

طاہر عمران میاں، جو ہوا بازی کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور نجکاری کو کور کر رہے ہیں، نے تاخیر کی وجہ کسی سنجیدہ امیدوار کا نہ ہونا اور حکومت کی جانب سے مایوسی میں اس نجکاری کے عمل کو بچانے کی کوششیں بتائی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت نے بولی کے عمل کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا ہے، جس کے نتیجے میں اس معاملے کو صحیح طریقے سے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ بڈنگ کے عمل میں کی گئی غلطیوں کی وجہ سے بے یقینی پیدا ہو گئی ہے۔
طاہر عمران میاں نے کہا کہ اس سے فائدہ ان سٹیک ہولڈرز کو ہے، جو کم سے کم قیمت پر یہ نجکاری چاہتے ہیں، جبکہ حکومت فی الحال کم قیمت پر پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرنا چاہتی۔ ’اس سے قبل حکومت کوشش کرتی رہی کہ پہلے شارجہ کی ایئر عریبیہ کو فلائی جناح کے ذریعے اس عمل میں شامل کرے، لیکن اس نے پہلے بالکل خاموشی اختیار کر لی اور بعد ازاں صاف جواب دے دیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ بلیو ورلڈ سٹی نے عدالت جانے کی دھمکی دی ہے کیونکہ انہیں اس عمل اور اس میں حالیہ تاخیر پر اعتراض ہے۔ طاہر عمران کے مطابق ’دوسری جانب عارف حبیب اس عمل میں تاخیر چاہتے ہیں تاکہ شیئرز کی قیمتیں جو اس وقت ڈیڑھ سو روپے ہیں، مزید گر جائیں۔ غیر یقینی جتنی بڑھے گی، اتنے ہی بولی دہندگان مایوس ہوتے جائیں گے، جس کے نتیجے میں حکومت کی مایوسی بڑھے گی اور وہ پی آئی اے کو اونے پونے داموں بیچنے کے لیے تیار ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایک ماہ بعد حصص کی قیمت 75 روپے تک گر جاتی ہے تو چند بولی دہندگان کو اپنی مطلوبہ قیمت پر حصص مل جائیں گے اور ان میں سے کچھ کی دلچسپی ایئرلائن کو بحال کرنے میں نہیں ہے، وہ صرف اسے سستے داموں خرید کر اس سے پیسہ کمانا چاہتے ہیں، چاہے جیسے بھی ہو۔ ’کیونکہ اب تک بحالی کا کوئی منصوبہ میں نے نہیں دیکھا۔‘

’جبکہ اگر بلیو ورلڈ گروپ معاملے کو عدالت میں لے جاتا ہے، تو اس سے سارا نجکاری کا عمل مزید طوالت کا شکار ہو جائے گا۔‘

طاہر عمران نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں تاخیر کو ’بنیادی طور پر حکومت اور ملکی بولی دہندگان کی اعصاب کی جنگ‘ قرار دیا ہے۔ بولی دہندگان حکومت کو تھکا کر نیچے لانا چاہتے ہیں تاکہ حکومت مایوسی میں آ کر فیصلہ کرے، اور وقت گزرنے کے ساتھ حکومت پر دباؤ بڑھتا جائے گا۔

طاہر کے مطابق حکومت نے جلد بازی میں ایک کام شروع کیا، جس کے نتیجے میں اب وہ پھنس چکی ہے۔ حکومت کا خیال تھا کہ بڑی تعداد میں سرمایہ کار آئیں گے، جو کہ ایک دیوانے کا خواب تھا، اور انہیں مطلوبہ بولی مل جائے گی، لیکن اس کے برعکس ہوا۔

طاہر عمران نے سوال اٹھاتے ہوئے اس معاملے کا حل بتایا کہ پی آئی اے ’جیسے سفید ہاتھی کی نجکاری اتنی آسانی سے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس ریاست کو چلانے والے اہم گروہ اس کے اندر تک سرایت کر چکے ہیں۔ آپ خود ہی دیکھ لیں، عارف حبیب کو نجکاری کر کے ایئرلائن دیں گے؟ جیسے سٹیل مل دی تھی؟ پھر آپ کو پتہ ہے سٹیل مل کے ساتھ کیا ہوا؟ اور اس سب کو جانتے بوجھتے ہوئے کون دیوانہ ہوگا جو اس ایئرلائن کو خریدنا چاہے گا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان