ایوان صدر کے مرکزی ہال کی شان و شوکت جمعرات کو کسی مغل بادشاہ کے دربار سے کم دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ بڑے بڑے برقی سفید شیشے والے قمقمے صفائی کے متقاضی دکھا دے رہے تھے لیکن ہال کی پھر بھی شان بڑھا رہے تھے۔
دو ممالک کے وزرائے اعظم، ایک صدر، وفاقی وزرا، اتحادی سیاسی رہنما، اعلیٰ سفارت کار اور اعلیٰ ترین عسکری قیادت اس وقت وہیں موجود تھی۔ تین روز قبل خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ مقرر ہونے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کی بھی یہ غالبا پہلی کسی عوامی تقریب میں شرکت تھی۔ عدلیہ سے شاید کوئی نہیں تھا۔
سٹیج پر تین کرسیاں دو بڑی اور ایک چھوٹی لگی تھی۔ سوچتے رہے کہ دو اعلی اور ایک عدنہ کون ہوگا جو ان پر براجمان ہوگا۔ ذہن میں پروٹوکول کا سوال بھی ابھرا لیکن جب شبہاز شریف کو ان پر بیٹھے دیکھا تو یاد آیا کہ وہ شاید صحت کی وجہ سے اپنی کرسی ہر جگہ ساتھ لے کر جاتے ہیں۔
میڈیا کی نشستیں بھی اکثر خالی تھیں لیکن بتایا گیا کہ سہیل وڑائچ اور عامر میر جیسے سینیئر صحافی صدر صاحب کی ذاتی درخواست پر موجود تھے۔ اگر کہا جائے کہ وہ میڈیا گیلری کی ’مین اٹریکشن‘ تھے تو غلط نہیں ہو گا۔ بغل میں بیٹھے ہونے کی وجہ سے ہمیں بھی کئی اہم شخصیات سے ان کی وجہ سے مصافحے کا شرف حاصل ہوا۔
بلکہ اختتام کے وقت جب سب آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے مل رہے تھے تو انہوں نے اونچی آواز میں سہیل کی خیریت دریافت کی۔ ’آر یو آل رائٹ؟‘ نہیں معلوم کہ انہوں نے یہ سہیل ورائچ کے پاؤں پر لگی سفید پٹی کو دیکھ کر پوچھا یا انہیں پہلے سے معلوم تھا۔
ایسے میں سکیورٹی کا یہ حال کہ اگر آپ بیت الخلا بھی جائیں یا لفٹ کی بجائے سیڑھیوں سے واپسی کا سوچیں تو فوراً سکیورٹی اہلکار دوڑے دوڑے پیچھے چلے آتے ہیں۔ ’سر کیا کر رہے ہیں یا سر آپ یہ نہیں کر سکتے،‘ وہ چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ سرگوشی کے انداز میں بتاتے ہیں۔
موبائل سے تو انہوں نے صدر دروازے پر ہی محروم کر دیا لیکن ہاتھ پر بندھی گھڑی بچ گئی۔ ایک دوسرے صحافی نے بتایا کہ ان کی تو سمارٹ گھڑی بھی رکھ لی گئی۔ اعلیٰ شخصیات کی تقریب کی ایک اور بڑی دشواری اختتام کے بعد واپسی کے وقت ہوتی ہے۔
ایک کے بعد ایک اپنے وفادار سپاہیوں کے حلقے میں ’یہ جا وہ جا‘ کرتے ہیں اور آپ کو پہلے اندر اور پھر باہر سڑک پر ان کے قافلوں کے گزرنے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی کا تو یہ حال تھا کہ ایک اعلیٰ افسر کی گاڑی پر کسی دوسری گاڑی کے نمبر والی پلیٹ بھی دیکھنے کو ملی۔ یہ جان بوجھ کر ایسا کیا گیا یا انجانے میں اس ’آ جا‘ میں پوچھنے کا وقت بھی نہ ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایوان صدر کی پانچویں منزل پر واقع ملائیشیا کے وزیر اعظم داتو سری انور بن ابراہیم کو نشانِ پاکستان دینے کی پروقار تقریب کے لیے اس سے اچھی ترتیب شاید ہی ہو سکتی تھی۔ 10 اگست 1947 کو پیدا ہونے والے انور ابراہیم پاکستان سے چار دن عمر میں بڑے ہیں اور اس ملک کی طرح ان کے سیاسی مسائل بھی کم نہیں رہے۔
انہیں تو ہم جنس پرستی جیسے واہیات الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی سیاست دانوں کی متنازع ویڈیوز تو کئی جاری ہوئیں لیکن شکر ہے اس قسم کا الزام باضابطہ طور پر ابھی کسی پر نہیں لگا اور اس کی وجہ سے وہ جیل نہیں گیا۔ یہ الگ بات کہ دبی دبی سرگوشیاں چلتی رہتی ہیں۔
اپنا رونا پھر کبھی سہی لیکن پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششوں کے صلے میں انور ابراہیم کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ’نشان پاکستان‘ سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ پاکستان کے ایواڈز کی درجہ بندی میں عسکری شجاعت کے اعلیٰ ترین اعزاز ’نشان حیدر‘ کے برابر ہے۔
تقریب میں انور ابراہیم کی پاکستان کے ساتھ خصوصی محبت کی ایک وجہ ان کا قومی شاعر علامہ محمد اقبال کا پیروکار ہونا بھی ہے۔ ہمیشہ چہکتے ہوئے نظر آنے والے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے بتایا کہ جو انور ابراہیم قید تھے تو انہوں نے علامہ اقبال کی کتابیں خصوصی طور پر منگوائی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بھی وہ پاکستان بہت آیا جایا کرتے تھے۔
مہمان وزیر اعظم کی پاکستان سے رشتہ داری بھی مسلمہ حقیقت ہے۔ ان کے ایک داماد کو تعلق پشاور سے بتایا جاتا ہے جو پشتو بھی جانتے ہیں، تاہم رہتے ملائیشیا میں ہی ہیں۔ اس کی تصدیق عطا تارڑ نے کی ہے۔
عشائیہ پرتکلف تھا یا نہیں لیکن فائیو کورس ضرور تھا۔ ہمارے ہاں کھل کر کھانے والوں کے لیے چھوٹے چھوٹے پورشن میں وقفے وقفے سے ڈلیوری کوئی زیادہ مناسب نہیں تھی۔ ساتھ میں لائیو موسیقی کا بھی تڑکا تھا۔ اور یاد رہے ایک بلوچی دھن بھی بجائی گئی۔
ایوان صدر کے کارڈ پر اس تقریب کے لیے جس انگریزی کے لفظ کا بہرحال استعمال کیا جاتا ہے اس کا ترجمہ گوگل نے یہ کیا۔ لہذا یہ صلے سے زیادہ دینے والے کی توقعات کو زیادہ ظاہر کرتا ہے۔
اپنے انتہائی مصروف لیکن مختصر ایک روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد ملائیشیا کے وزیر اعظم بہت سے یادیں لے کر واپس لوٹ گئے ہیں تاہم شہباز شریف کو امید ہے کہ وہ وہ دوبارہ بہت جلد طویل مدت کے لیے سیاحت کے لیے پاکستان آئیں۔ آپ کو کیا یہ ممکن دکھائی دیتا ہے؟