ملائیشیا کے وزیراعظم کا دورہ، ’پاکستانی قیدیوں سے متعلق بات نہیں ہوئی‘

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے مطابق ستمبر 2024 تک ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 463 تک پہنچ گئی ہے، جو کہ فروری کی 299 کی تعداد سے 55 فیصد بڑھی ہے یعنی محض سات ماہ میں 200 قیدیوں کا اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے ملائیشیا کے ہم منصب داتو سری انور ابراہیم اسلام آباد میں 3 اکتوبر 2024 کو اقتصادی تعاون کی کانفرنس میں اظہار یکجہتی کر رہے ہیں (پی آئی ڈی)

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم کے دورے کے دوران کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے کیے گئے سوال پر بتایا کہ ان کے علم میں اس موضوع پر گفتگو نہیں ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے درمیان اس قسم کے کسی معاہدے یا دستاویز پر اتفاق ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایوان صدر میں عشائیے کے دوران اس پر کوئی بات ہوئی ہے تو وہ انہیں معلوم نہیں۔‘

تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید معلومات حاصل کرکے رجوع کرنے کا وعدہ کیا۔

پاکستان اور ملائیشیا نے جمعرات کو تجارت، معیشت، بینکنگ، پورٹس، ٹیکنالوجی اور زراعت کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید توسیع دینے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔

پاکستان کے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سربراہ رابعہ جویری آغا نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کی بڑھتی ہوئے تعداد کی جانب توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر ملائیشیا کے وزیراعظم کے دورے کے موقع پر انگریزی اخبار ’ڈان‘ میں شائع ہوئی۔

رابعہ جویری آغا کا کہنا تھا کہ ستمبر 2024 تک ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کی تعداد 463 تک پہنچ گئی ہے، جو کہ فروری کی 299 کی تعداد سے 55 فیصد زیادہ ہے، یعنی محض سات ماہ میں 200 قیدیوں کا اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے سفارتی مداخلت کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعداد متاثرہ زندگیوں اور علیحدہ خاندانوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پاکستانیوں کو امیگریشن کی خلاف ورزیوں اور چھوٹے جرائم سے لے کر خطرناک ڈرگ ایکٹ جیسے سخت قوانین کے تحت کئی الزامات کا سامنا ہے۔

بقول رابعہ جویری: ’ناکافی قانونی نمائندگی، زبان کی رکاوٹوں اور محدود قونصلر سپورٹ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سربراہ نے تجویز دی کہ پاکستان کو ملائیشیا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کرنا چاہیے جیسے کہ ایران جیسے ممالک نے کیا ہوا ہے۔

صرف 2024 میں ملائیشیا میں 85 ہزار پاکستانیوں نے 71 ملین ڈالر کی ترسیلاتِ زر بھیجیں۔ 2020 میں 1500 پاکستانی قیدی ملائیشیا سے وطن واپس لائے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2020 سے ملائیشیا نے یوکرین، برونائی اور ایران کے ساتھ ’پرزنر ٹرانسفر ایگریمنٹ‘ (پی ٹی اے) پر دستخط کیے ہیں جو نہ صرف قیدیوں کی منتقلی میں سہولت فراہم کرتے ہیں بلکہ سفارتی اور قونصلر تعلقات کو بھی تقویت دیتے ہیں۔ رابعہ جویری کا اصرار ہے کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اور ملائیشیا پی ٹی اے پر دستخط کریں۔ یہ ایک سفارتی ضرورت اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔‘

تاہم مہمان وزیراعظم داتو سری انور ابراہیم کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں اور میڈیا سے بات چیت میں لگتا ہے کہ دونوں کی توجہ معاشی تعاون کو بڑھانے پر ہی مرکوز رہی اور قیدیوں پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

جمعرات کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کے ساتھ تفصیلی اور نتیجہ خیز بات چیت کرکے خوشی ہوئی۔ ’ہم نے پاکستان اور ملائیشیا کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے تجارت، آئی ٹی، توانائی، زراعت، حلال گوشت کی برآمدات، سیاحت، تعلیم اور دفاع سمیت متعدد امور اور علاقائی اور عالمی پیشرفت بالخصوص غزہ اور لبنان کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔‘

دوسری جانب نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ وہ ملائیشیا میں پاکستانی قیدیوں کے بارے میں جامع ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے وہاں کے قومی انسانی حقوق کے ادارے SUHAKAM کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ ’یہ شراکت داری اہم معلومات تک رسائی کی اجازت دیتی ہے جو دوسری صورت میں حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ ہم ملائیشیا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں۔‘

آئین اور بین الاقوامی قانون کے تحت حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیرون ملک نظربند اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرے۔ سرکاری اندازوں کے مطابق دنیا بھر کی جیلوں میں اس وقت 23 ہزار سے زائد پاکستانی شہری قید ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان