برطانیہ: احتجاج پر ’سینگوں والی انسانی‘ کھوپڑی کی نیلامی منسوخ

برطانیہ میں انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے ملنے والی سینگوں والی انسانی کھوپڑی کی نیلامی قبائلی برادری کے ردعمل کے بعد روک دی گئی۔

آٹھ اپریل 2023 کی اس تصویر میں انڈیا کی شمالی ریاست ناگالینڈ میں مقامی کمیونٹی روایتی رقص کرتے ہوئے (اے ایف پی)

برطانیہ میں انڈیا کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ سے ملنے والی سینگوں والی انسانی کھوپڑی کی نیلامی قبائلی برادری کے ردعمل کے بعد روک دی گئی۔

آکسفورڈ شائر کے ٹیٹسورتھ سوان فائن آرٹ آکشن ہاؤس میں بدھ کو فروخت کے لیے درج انسانی باقیات پر مشتمل 20 سے زائد اشیا میں 19ویں صدی کی سینگ والی ناگا انسانی کھوپڑی بھی شامل تھی۔

نیلام گھر نے انڈین ریاست میں چرچ کے رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ایک گروپ ’فورم فار ناگا ری کنسیلی ایشن‘ (ایف این آر) کی قیادت میں احتجاج کے بعد کھوپڑی کو فروخت کے لیے رکھی گئی اشیا کی فہرست سے ہٹا دیا۔

ایف این آر نے اس نیلامی کی مذمت کرتے ہوئے مقامی آباؤ اجداد کی باقیات کو نوادرات جمع کرنے کے شوقین افراد کے لیے ایک آئٹم کے طور پر فروخت کرنے کو غیر انسانی عمل کے طور پر بیان کیا تھا۔

 اس معاملے کو ناگالینڈ کے وزیر اعلی نے بھی اٹھایا جہوں نے انڈیا کی مرکزی حکومت سے مداخلت کرنے پر زور دیا۔

اس کھوپڑی کو نوادرات کی کتابوں، قدیم نسخے، پینٹنگز، فلمی سامان، فرنیچر اور مٹی کے پرانے برتنوں کے ساتھ ’دا کیوریئس کلیکٹر سیل‘ کے عنوان سے نیلامی کے لیے پیش کی گئی اشیا کی فہرست میں درج کیا گیا تھا۔

سینگ والی کھوپڑی کی متوقع قیمت ساڑھے تین ہزار پاؤنڈ سے چار ہزار پاؤنڈ رکھی گئی تھی۔ اس کھوپڑی کا ابتدائی سراغ بیلجیم کے ’فرانسیوس کوپنز کلیکشن‘ سے ملتا ہے۔

ایف این آر نے ایک بیان میں کہا: ’یہ نیلامی اس استثنیٰ کو اجاگر کرتی ہے جس سے یورپی نوآبادکاروں کی نسلیں لطف اندوز ہوتی ہیں کیونکہ وہ ناگا لوگوں کی نسل پرستانہ، نوآبادیاتی اور پرتشدد تصویر کشی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔‘

یہ نیلامی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب دنیا بھر میں مقامی کمیونٹیز سابق نوآبادیاتی ممالک پر ان کے آباؤ اجداد کی انسانی باقیات کو واپس بھیجنے کے لیے زور دے رہی ہیں۔

 

کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ناگا ماہر بشریات اور پروفیسر ڈاکٹر ڈولی کیکون نے دی انڈپینڈنٹ کو اس حوالے سے بتایا: ’کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ 21 ویں صدی میں پرندوں، جانوروں اور رینگنے والے جانداروں کی فروخت پر تو پابندی ہے، اور ایسا ہونا بھی چاہیے، لیکن یہاں انسانی باقیات کی نیلامی پر ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ نیلامی شروع ہونے سے محض چند گھنٹے قبل ہی فروخت روکی گئی۔

ان کے بقول: ’ہمیں پالیسی لیول پر تبدیلی لانی ہوگی تاکہ انسانی باقیات کسی اور جگہ پر فروخت نہ ہوں۔ یہ غیر انسانی عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ہم اسے قانونی طور پر روک نہیں دیتے اور ایسی چیزوں پر بین الاقوامی پابندی نہیں لگائی جاتی۔‘

ناگالینڈ کے وزیر اعلیٰ نیفیو ریو نے انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو خط لکھ کر نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن کے ساتھ معاملہ اٹھانے کی اپیل کی تھی۔

انہوں نے لکھا: ’آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کسی بھی مردہ شخص کی انسانی باقیات کا تعلق اپنے لوگوں اور زمین سے ہوتا ہے۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ یہ فروخت مقامی لوگوں پر ’مسلسل نوآبادیاتی تشدد‘ کا عمل تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف این آر نے کہا کہ ناگا کی آبائی انسانی باقیات کی وطن واپسی کو ترجیح بنایا جانا چاہیے۔

سوان فائن آرٹ نے پاپوا نیو گنی، نائیجیریا، کانگو اور ملاوی کی مقامی کمیونٹیز سے انسانی باقیات پر مشتمل اشیا کو بھی واپس لے لیا ہے جو نیلام گھر کی ویب سائٹ پر فروخت کے لیے درج کولیکشن میں شامل تھیں۔

دی انڈپینڈنٹ نے تبصرہ کے لیے سوان فائن آرٹ سے رابطہ کیا ہے۔

سال 2020 میں آکسفورڈ میں پٹ ریورز میوزیم نے ان باقیات کی پہلی نمائش کے 80 سال بعد ’ڈی کالونائزیشن پراسیس‘ کے تحت سکڑے ہوئے سروں اور دیگر انسانی باقیات کا مجموعہ ہٹا دیا تھا۔

میوزیم نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ میوزیم کے ماضی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ڈولی کیکون میوزیم کی ’ریکوور، ری سٹور اینڈ ڈی کالونائز‘ ٹیم کی رکن ہیں جن کا کہنا ہے کہ پٹ ریورز کے کولیکشن کی جانچ پڑتال اور ان کی ان کے آبائی وطن واپسی کے عمل میں آٹھ سے 15 سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

گروپ کا کہنا ہے کہ میوزیم میں ناگا آبا و اجداد کی باقیات کے 214 آئٹمز موجود ہیں جن میں انسانی بال یا ہڈی جیسے اجزا سے بنی اشیا شامل ہیں۔

ڈاکٹر کیکون نے کہا کہ پورے عمل میں ’کمیونٹی فرسٹ‘ پالیسی کی ضرورت ہے۔

ان کے بقول: ’دنیا بھر میں  نوادات کی ان کے وطن واپسی کے تمام معاملات میں یہ کمیونٹیز ہی ہیں جو باقیات کو دفنانے اور زخم بھرنے کی  ضرورت محسوس کرتی ہیں اور یہ وہ کمیونٹیز ہیں جو اس معاملے پر اکٹھی ہوتی ہیں۔‘

پٹ ریورز میوزیم کی ڈائریکٹر لورا وان بروکھوون نے ایکس پر لکھا کہ ’آبائی اور انسانی باقیات کو نیلام کرنا اشتعال انگیز ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ مکمل طور پر غیر اخلاقی ہے۔ ناگا، شوار، دیاک، سولومن جزائر، نائجیریا، کانگو، بینن اور پاپوا نیو گنی کی انسانی باقیات کی اس نیلامی کو روکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ