بی بی سی کا پروگرام ہارڈ ٹاک بند کرنے کا فیصلہ ہو گیا: میزبان سٹیفن سیکر

ہارڈ ٹاک کے میزبان نے لکھا کہ ’تین دہائیوں تک دنیا بھر کے سیاستدانوں اور طاقتور افراد سے پوچھ گچھ کے پروگرام کو بند کرنا نہ صرف ان کے لیے بلکہ بی بی سی اور ان تمام لوگوں کے لیے افسوس ناک خبر ہے جو آزاد اور تحقیقاتی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔‘

بی بی سی ہارک ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ادارے کی انتظامیہ نے اس پروگرام کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے (بی بی سی ہارڈ ٹاک یوٹیوب سکرین گریب)

برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی) کے حالات حاضرہ کے مشہور زمانہ پروگرام ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو بی بی سی نے ان کے پروگرام کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اپنے ایکس ہینڈل پر سلسلہ وار پوسٹوں میں ہارڈ ٹاک کے میزبان نے لکھا کہ ’تین دہائیوں تک دنیا بھر کے سیاستدانوں اور طاقتور افراد سے پوچھ گچھ کے پروگرام کو بند کرنا نہ صرف ان کے لیے بلکہ بی بی سی اور ان تمام لوگوں کے لیے افسوس ناک خبر ہے جو آزاد اور تحقیقاتی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔‘

ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر نے اپنی پوسٹوں میں مذید لکھا کہ ’ایسے وقت میں جب غلط معلومات اور میڈیا کی ہیرا پھیری عوامی گفتگو میں زہر گھول رہی ہے ہارڈ ٹاک جیسا پروگرام منفرد ہے جو طویل دورانیے کا شو ہے اور اس کا ایک مشن ہے کہ ان سب سے سوال کیے جائیں جو عام طور پر اپنے ممالک میں احتساب سے بچ جاتے ہیں۔‘

سٹیفن سیکر نے مذید لکھا کہ جس کسی نے بھی اوگو شاویز، سرگئے لاوروف، میلس زیناوی، لولا، نینسی پیلوسی، رجب طیب اردوان، امینویل میکروں، عمران خان، اور دیگر ان گنت رہنماؤں کے ساتھ ان کے انٹرویوز سالوں سے دیکھے ہیں انہیں معلوم ہے کہ ہارڈ ٹاک کبھی بھی صرف ایک نیوز شو نہیں تھا۔

اپنی ٹیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پروڈیوسرز اور تحقیق کرنے والوں کی ایک شاندار ٹیم کو بالکل اسی طرح ختم کیا جا رہا ہے جس طرح بی بی سی کے ڈی جی ٹم ڈیوی برطانوی حکومت کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ بی بی سی ورلڈ سروس کی صحافت جمہوری طاقت کا ایک ایسا اہم اظہار ہے کہ ٹیکس دہندگان کو اس کے لیے فنڈز فراہم کرنا ہوں گے۔

بی بی سی کی ورلڈ سروس دنیا بھر میں بولی جانے والی تقریبا 40 زبانوں پر مشتمل ہے جن میں بی بی سی اپنی خبریں اور تجزیے نشر یا شائع کرتا ہے۔

بی بی سی ورلڈ سروس کے دنیا کے کئی ممالک میں نامہ نگار اور پروڈیوسرز موجود ہیں جو اپنی اپنی زبانوں میں خبروں کو جمع کرکے انہیں شائع کرنے کا کام کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بی بی سی میں گذشتہ کئی سالوں سے اخراجات میں کٹوتی کے لیے تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں جن میں ریڈیو کا ختم کیا جانا اور لندن اور دنیا بھر سے ملازمین کی چھانٹی بھی اسی منصوبے کا حصہ ہے۔

ہارڈ ٹاک کے میزبان سٹیفن سیکر نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر لکھا کہ ’ٹم ڈیوی کی کوششوں کا کوئی بھی حل نکلے اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہارڈ ٹاک کو بچانے میں دیر ہوگئی ہے جو طویل عرصے تک ورلڈ سروس کے پلر کے طور پر کام کرتا رہا۔

’جہاں تک میرا تعلق ہے، غیر ملکی نامہ نگار سے لے کر ہارڈ ٹاک کے تفتیش کار تک، میں بی بی سی کے اندر اپنی صحافت کو آگے بڑھانے میں بہت خوش قسمت رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ پوری دنیا کے ناظرین اور سامعین نے ہارڈ ٹاک کی کتنی قدر کی ہے۔ ان کی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصہ بننا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘

سٹیفن سیکر نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں واضح طور پر کچھ لکھا نہ ہی یہ بتایا کہ وہ بی بی سی کا حصہ ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے لکھا کہ ’اگلے سال میں نئے مواقع کو گلے لگانے کی کوشش کروں گا۔ عالمی امور کی سخت تلاش کے لیے میرا عزم تبدیل نہیں ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ بی بی سی بھی ایسا نہیں کرے گا۔‘

ہارڈ ٹاک کے میزبان کے ایکس پر اعلان کے بعد دنیا بھر صحافیوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور اسے صحافت کے لیے ایک نقصان سے تعبیر کیا ہے۔

بی بی سی کی انتظامیہ کی جانب سے اب تک اس بارے میں کوئی تصدیقی یا تردیدی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا