موسمیاتی تبدیلی سرائیکی وسیب کے میلوں کو بھی نگل رہی ہے

ساون اور بھادوں، جو ہماری ثقافت اور ادب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے، ان پر گیت لکھے گئے اور انہیں سہانے موسم قرار دیا گیا تھا، اب موسمیاتی تبدیلی کی بدولت ان میں بےتحاشہ اور ناقابلِ برداشت حبس اور گرمی ہوتی ہے۔

27 اگست 2023 کو جنوبی پنجاب میں بورے والا کے سیلاب زدہ علاقے میں سیلاب سے متاثرہ افراد ایک کشتی پر مویشیوں کا چارہ لے جا رہے ہیں (شاہد سعید مرزا / اے ایف پی)

موسمیاتی تبدیلیاں اور ان کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔

موسموں کے بدلتے تیور، اوقات، اور شدت نے قدرت کے نظام میں بڑی تبدیلیاں کر دی ہیں۔ وہ موسم جو خوشگواری کا احساس دلاتے تھے، اب اذیت کا باعث بن رہے ہیں۔

ساون اور بھادوں، جو ہماری ثقافت اور ادب میں ایک خاص مقام رکھتے تھے، ان پر گیت لکھے گئے اور انہیں سہانے موسم قرار دیا گیا تھا، اب موسمیاتی تبدیلی کی بدولت ان میں بےتحاشہ اور ناقابلِ برداشت حبس اور گرمی ہوتی ہے۔ درخت گرمی کی شدت سے جھلس جاتے ہیں۔

اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی کے اسباب میں پاکستان کا حصہ بہت کم ہے، لیکن اس کے منفی اثرات پاکستان پر زیادہ گہرے ہیں۔ 2022 کے بڑے سیلاب نے ملک بھر میں جو تباہی پھیلائی، ہمارا ملک ابھی تک اس سانحے سے نکل نہیں پایا۔

خصوصاً سرائیکی وسیب، جسے عرفِ عام میں جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات سے دوچار ہے۔ حقیقت میں یہ دونوں نام معنوی اور جغرافیائی اعتبار سے مختلف ہیں۔ سرائیکی وسیب چاروں صوبوں کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے یہاں کی زبان چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ وسیب خیبر پختونخوا کے اضلاع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان سمیت پنجاب کے تقریباً 23 اضلاع پر مشتمل ہے، جب کہ جنوبی پنجاب کے اضلاع کی تعداد کم ہے۔

سرائیکی وسیب دریائے سندھ کے دونوں کناروں اور چناب کے مغربی کنارے کے درمیان واقع ہے اور روہی، چولستان، اور ملتان پر مشتمل ہے۔ 2022 کے سیلاب نے دریائی علاقوں اور بارشوں نے صحرائی علاقوں میں تباہی کی ایسی داستانیں رقم کی ہیں، جو مدتوں سنائی جائیں گی۔

ان داستانوں میں اس وسیب کی سیاحت اور ثقافت کے قصے بھی شامل ہیں۔ کسی بھی خطے کی ثقافت اور سیاحت اس کی شناخت کا حصہ ہوتی ہیں، اور یہ ثقافت اس خطے کی زندگی اور اس کی بقا کا ضامن ہوتی ہے۔ سرائیکی وسیب کے اضلاع موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے جہاں زراعت میں خطرات سے دوچار ہیں، وہیں اس وسیب کی ثقافت اور سیاحت بھی خطرات کی زد میں ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونے والے سیلاب، دریاؤں سے زمینی کٹاؤ، سوکھتے ہوئے درخت، زیرِ زمین کم ہوتا ہوا پانی، جھیلوں اور دریاؤں کی بڑھتی ہوئی آلودگی، درختوں کی کٹائی، اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی جیسے مسائل اس خطے کی ثقافت اور سیاحت کے لیے بڑے خطرات بن چکے ہیں۔ اس خطے کی چند ثقافتی اور سیاحتی مثالیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث گزشتہ برسوں سے خطرات سے دوچار ہیں، درج ذیل ہیں:

جال منوتی میلہ

ہر سال مئی میں جال منوتی کا میلہ لگتا تھا، لیکن کچھ برسوں سے یہ میلہ کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہو گیا ہے۔ سخت گرمی اور جال درخت کی کٹائی نے برسوں سے جاری اس میلے کو ختم کر دیا ہے۔ ’ہیر والے ٹیلے‘ پر ہونے والے اس ایونٹ میں لوگ درختوں، جال، پیلہوں پر بات کرتے تھے۔ اس میلے میں صدیوں سے بقا کی جنگ لڑتے درخت جال (جس پر پیلہوں کا پھل لگتا ہے) کی حفاظت کی تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ جال صدیوں پرانا درخت ہے، جس کا مقامی ثقافت اور ادب میں بھی اہم مقام ہے۔

سرائیکی شاعری میں خواجہ غلام فرید کا کلام ’پیلہوں پکیاں نی، آ چنڑوں رل یار‘ آج بھی صوفی میوزک کا حصہ ہے۔ اس میلے میں ملک بھر سے دانشور شرکت کرتے تھے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں نے اس خطے کے درجہ حرارت کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ اب یہ میلہ گزشتہ دو برس سے ختم ہو چکا ہے۔

تھل جیپ ریلی / تھل ثقافتی میلہ

 اسی طرح نومبر کے مہینے میں مظفر گڑھ، کوٹ ادو اور لیہ کے صحراؤں میں ٹی ڈی سی پی کے زیرِ اہتمام تھل جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے، جو مظفر گڑھ سے شروع ہو کر لیہ کی صحرائی تحصیل چوبارہ کے مقام تک جاتی ہے اور واپس مظفر گڑھ میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔ پہلی جیپ ریلی کے موقع پر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لیہ، سید واجد علی شاہ نے چوبارہ کے مڈ پوائنٹ پر تھل ثقافتی میلہ منعقد کیا، جو اب اس وسیب کا معروف ایونٹ بن چکا ہے۔

تاہم 2022 کے موسمیاتی تبدیلی کے بعد یہ میلہ بھی شائقین کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہا۔ گرمی کے دوران دن اور رات کے وقت کی شدید سردی نے لوگوں کو پریشان کیا ہے۔ گزشتہ برس اس چار روزہ میلے کے آخری دو راتوں کے مشاعرے اور موسیقی کے ایونٹس ناکام رہے، کیونکہ رات کے وقت سردی کی شدت کی وجہ سے لوگ جلدی واپس چلے جاتے ہیں۔

میلہ سید عنایت شاہ بخاری

 ضلع لیہ کے شہر فتح پور کے مشرق میں، تحصیل چوبارہ کے صحراؤں اور نہری علاقوں کے سنگم پر موجود درگاہ سید عنایت شاہ بخاری پر گزشتہ 382 سال سے اونٹوں کی منڈی اور میلہ منعقد ہوتا آ رہا ہے۔ یہ ایشیا کے چند بڑے میلوں میں شمار ہوتا تھا اور آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا اونٹوں کی خریدو فروخت کا میلہ ہے۔

جس دن یہ میلہ ختم ہوتا ہے اس سے اگلے روز صحرا میں چنے کی فصل کی کٹائی شروع ہو جاتی ہے۔ اس میلے میں خیموں کی بستیاں آباد ہوتی ہیں، موسیقی، سرکس ،تھیٹر، کھانے کے بازار، کٹائی کے اوزاروں کے سٹال سجتے ہیں مگر موسمیاتی تبدیلیوں اور اس کے منفی اثرات سے اب اس میلے کی رونق بھی مانند پڑتی جا رہی ہے۔

دس روز تک جاری رہنے والی رم جھم سے جہاں موسم ٹھنڈا اور قابل برداشت رہتا تھا ادھر یا تو اب رم جھم ہوتی نہیں،  اگر ہو تو تیز بارش میں بدل جاتی ہے جس سے شائقین میلہ اور بیوپاریوں کو موسم کی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں یہاں کے صارفین اور شائقین کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے ہر سال کروڑوں روپے آمدنی والے اس میلے کو بھی اپنی بقا کا مسئلہ لاحق ہو چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ