اردو کے صفِ اول کے نقاد گوپی چند نارنگ انتقال کر گئے، ان کی عمر 91 برس تھی۔
گوپی چند نارنگ 1931 میں بلوچستان کے ایک چھوٹے سے قصبے دوکی میں پیدا ہوئے جو لورالائی کے قریب واقع ہے۔
ان کے گھر میں سرائیکی بولی جاتی تھی اور ان کے والد دھرم چند نارنگ ادب کے شوقین اور فارسی اور سنسکرت زبانوں کے ماہر تھے۔
گوپی چند نارنگ کے والد انہیں سائنس کی طرف راغب کروانا چاہتے تھے مگر انہیں بچپن ہی میں اردو ادب و زبان کا جو چسکہ لگا تھا وہ آخر تک ان کے ساتھ رہا اور انہوں نے اس میدان میں بےبہا عزت اور شہرت حاصل کی جو شاید سائنس میں انہیں کبھی نہ حاصل ہو سکتی۔
آزادی کے بعد نارنگ کا خاندان بھارت منتقل ہو گیا اور انہوں نےمزید تعلیم وہیں جاری رکھی۔
1952 میں انہوں نے اردو میں ایم اے اور 1958 میں اردو لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
گوپی چند نارنگ کا شمار بیسویں صدی کے اردو کے ان ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے تمام عمر شعرو ادب کی دنیا پر غور و فکر کیا اور اپنی تنقیدی بصیرت کو اردو شعرو ادب کے قارئین تک منتقل کیا۔
گوپی چند نارنگ اپنی تنقید میں کلاسیکی روایت اور فکر و فن کے نمائندہ ادیب تھے۔ وہ اپنی تمام ادبی زندگی میں نظریات اور تحریکوں پر گہری نظر رکھنے کے باوجود ہمیشہ غیر نظریاتی رہے کیونکہ ان کے نزدیک ادب و شعر کا بنیادی حوالہ، جس سے ادب، ادب اور شعر شعر کہلاتا ہے، وہ کوئی نظریہ، خیال یا فکر نہیں ہے بلکہ وہ فن ہے۔
نارنگ صاحب کا اردو اور فارسی کی ادبی روایت اور تاریخ سے بہت گہرا اور مضبوط علمی تعلق اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ متن کی خواندگی میں مصنف یا شاعر کی متن کاری اسلوب کے حوالے سے کیا جوہر رکھتی ہے اور اسی اسلوب کی بنیاد پرکسی بھی فن پارے کی معنوی جہات کو کیسے پرکھا جا سکتا ہے۔ نارنگ صاحب کا اگر زیادہ توجہ کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو وہ ہمارے سامنے پہلے اور شاید آخری اسلوبیاتی نقاد کے طور پر سامنے آتے ہیں۔
تعصب اور تنگ نظری اس تنقید میں پائی جاتی ہے کہ جس کا نقاد خود کسی نظریاتی عصبیت کا شکار ہو۔ نارنگ صاحب کی تنقید میں اگر یہ تنگ نظری اور تعصب نہیں پائی جاتی تو اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی بصیرت اور کمال کو فن پارے کی نظریاتی اساس پر ظاہر کرنے کے بجائے فن پارے کی اصل یعنی اُس کے فن اور اسلوب پر گہری نگاہ رکھی اور نظریاتی، معنوی یا فکری مباحث کو ادب و شعر سے باہر نکال کر سماجیات کے ناقدین اور ماہرین کے سپرد کر دیا۔
وہ تمام شاعر اور ادیب جنہیں نارنگ صاحب پسند نہ تھے، اس کا سبب بھی نارنگ صاحب سے کوئی نظریاتی یا فکری سبب نہیں تھا بلکہ نارنگ صاحب کا ان کی شاعری، ناول یا افسانے وغیرہ پر وہ نقد تھا کہ جس کی روح سے کوئی نظم اپنی کرافٹ میں کیوں نظم نہ قرار پائی یا کوئی افسانہ افسانے یا ناول کے فن سے کیوں باہر جا گرا۔
میر، غالب اور اقبال پر ان کے مضامین اور کتب کو اگر سامنے رکھا جائے تو فنِ تنقید میں ان کے اس مرکز کو دریافت کیا جا سکتا ہے کہ جس میں آنے والے شاعروں اور ادیبوں کو اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ وہ شعر گوئی کے کن فنی اور اسلوبیاتی قدروں کو آگے لے کر بڑھیں کہ جنہوں نے میر، غالب اور اقبال کو اردو ادب میں بلند ترین مرتبہ عطا کیا۔
نارنگ صاحب کلاسیکیت اور روایت سے جڑے شعور ہی کی روشنی میں ادب و شعر کی دنیا میں نئے تجربات اور رجحانات کو خوش آمدید کہنے والوں میں شامل تھے۔ اگر کسی نے ان کے مضمون ’اردو میں تجریدی اور علامتی افسانہ‘ پڑھا ہو تو وہ ضرور جانتا ہو گا کہ افسانہ نگاری کے فن میں تجریدیت یا علامتیت کیسے اس ذیل میں اردو افسانے کی ان جہات کو فروغ دینے کا باعث بن سکتی تھی۔
افسوس ہمارے افسانہ نگاروں نے تجریدی افسانہ بھی لکھا اور علامتی بھی لیکن ایسا افسانہ کن اسالیب کا متقاضی ہے، یہ ہمارے افسانہ نگار کم کم جان پائے۔ یہی وجہ تھی کہ افسانے کی یہ دونوں صورتیں ہوا ہو گئیں۔
اسی طرح وہ ہندوستان میں جدیدیت کا غلغلہ اٹھانے والوں کو بھی پسند نہ کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جدیدیت کے نام پر ادب و شعر میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، کیونکہ ان کے نزدیک فن یا اسلوب میں تجربہ کرنا تو ٹھیک تھا لیکن یہ تجربہ اگر کسی بھی صنف کے بنیادی جوہر یعنی فن ہونے میں ناکام رہتا ہے تو ایسا ہر تجربہ ادب کے دائرے سے باہر ہو جائے گا۔
انہوں نے پریم چند، کرشن چندر، منٹو، انتظار حسین یا عبداللہ حسین کے بارے میں اپنے جن مضامین میں اظہارِ خیال کیا ان میں بھی فکشن کے فن پر توجہ مرکوز رکھی اور خاص طور پر فکشن کے فن میں علامت اور استعارے کی دریافت پر بہت توجہ دی، کیونکہ ان کے نزدیک فکشن کا متن علامتوں اور استعاروں کے ذریعے کہانی میں ڈھلتا ہے۔
آج نارنگ صاحب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کے متعدد مضامین اور کتابیں ہمیشہ اردو ادب کی دنیا میں چراغ کی طرح روشن رہیں گی۔ ان کی کتابوں میں ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات،‘ ادبی تنقید اور اسلوبیات، سانحہ کربلا بطور ’شعری استعارہ،‘ ’ترقی پسندی،‘ ’جدیدیت اور مابعد جدیدیت،‘ ’معنی آفرینی،‘ ’جدلیاتی وضع،‘ ’شونتیا اور شعریات،‘ ’انیس اور دبیر،‘ ’اردو غزل‘ اور ’ہندوستانی ذہن و تہذیب‘ اہم ہیں۔