’اساں قیدی تخت لہور دے‘ سائیں عاشق بزدار کی زبان زد عام نظم ہے جو پچھلی کئی دہائیوں کے سفر سے ہو کر اب ایک نعرے کا روپ دھار چکی ہے۔
ملتان شہر کے رہنے والے اس مشکل کا شکار ہمیشہ رہے کہ جب جب انتخابات آئے، ایک بڑے وعدے کے نیچے کئی چھوٹے چھوٹے مسئلے دبا دیے گئے۔ 30 سے 35 سال کا وقت گزر گیا، وہ وعدہ تو کیا پورا ہونا تھا، باقی مسئلے جوان ہو کر منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔
گندگی کے انبار ہیں، گیس نہ ہونے کے برابر آتی ہے، ٹریفک شتر بے مہار ہے، سڑکیں تنگ پڑ چکی ہیں، عین کچہری چوک پہ وکیلوں کی گاڑیاں سڑک پر ڈبل پارک ہوتی ہیں جس کے بعد شہریوں کے لیے نالی جتنا راستہ بچتا ہے، اور نالی سے یاد آیا کہ جرعہ بھر بارش برستی ہے تو دو ہفتے تک فلائی اووروں سے پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے۔ یہ چوک شہر کے مرکزی چوراہوں میں سے ایک ہے!
وہ ایک بڑا وعدہ کون سا ہے کہ جس کی چھتری تلے دب کر یہ سارے مسئلے کبھی سر نہیں اٹھا سکے؟ وہ صوبہ جنوبی پنجاب کا وعدہ ہے، وسیب کے سرائیکستان کا وعدہ۔
1980 کے آس پاس پیپلز پارٹی چھوڑ کر سرائیکی قوم پرست رہنما تاج محمد لنگاہ نے سرائیکی صوبہ محاذ نامی پارٹی بنائی اور جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا۔
ضیا دور کے بعد جو بھی انتخابات ہوئے سرائیکی صوبے کا مطالبہ آہستہ آہستہ ہر جماعت کے منشور میں اپنی جگہ بناتا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ماضی قریب میں دیکھیں تو 2008 الیکشن کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے، شہر ملتان کے لیے بہت ترقیاتی کام کروانے کے باوجود یہ وعدہ ایفا نہ کر سکے۔
2013 میں مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابی جلسوں میں جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا خواب دکھایا گیا لیکن پانچ سال حکومت کرنے کے بعد بھی کوئی ایک سنجیدہ قدم اس رخ نہ اٹھ سکا۔
2018 کے الیکشنوں میں عثمان بزدار سرائیکی صوبے کے فرنٹ پر الیکشن لڑے اور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ان سے کچھ نہ بن پڑا تو جنوبی پنجاب کا ایک ادھ سیکریٹریٹ بنا کر چلے گئے۔
عین اس سیکرٹریٹ کے سامنے کھڑے ہو کر آج ایک وکیل صاحب مجھے انٹرویو دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ ’اکثر فائلیں یہاں جاتی ہیں تو سیکریٹری بولتے ہیں اوپر والے کریں گے، ہمارا اختیار نہیں ہے۔ اوپر شہر لاہور ہے!‘
چھ قسطوں میں پہلا دن تھا جب لوگوں کی رائے کچھ متوازن نظر آئی ورنہ شہر شہر جدھر بھی گیا پی ٹی آئی سے ہٹ کر کم ہی کوئی بات کرتا تھا۔
پیپلز پارٹی کا نام اب تک کوئی نہیں لے رہا، ن لیگ کے نام لیوا یہاں بہرحال تھے۔
مجموعی طور پہ آج کا دن تکلیف دہ تھا۔ اپنے ہی شہر میں الیکشن کے سوال سے لوگوں کو ان کے مسائل پر روتے دیکھنا اذیت ناک تھا۔
سٹیشن کے باہر ملنگ قسم کا ایک مزدور جس کے تن پہ کپڑے بھی کئی روز پرانے تھے، 18000 روپے بجلی کا بل بھر کے بیٹھا ہے، وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ہم اپنی گردن گھونٹ لیں یا بچوں کو مار دیں؟ تم الیکشن کی بات کر رہے ہو یہاں زندہ رہ پانا مشکل ہو چکا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔