ایک صحافتی رپورٹ جس نے دنیا کو ہلا دیا

بی بی سی کی ایتھوپیا سے متعلق جس خبر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا تھا آج چار دہائیوں بعد وہ ناظرین کو انتہائی مبالغہ آمیز اور تکلیف دہ محسوس ہو گی۔

صحافی مائیکل بیرک نے 1984 میں قحط کی رپورٹنگ کے لیے ایتھوپیا کا دورہ کیا (برٹش پاتھے/یو ٹیوب)

40 سال قبل سکس او کلاک نیوز پر نشر ہونے والی ’وہ رپورٹ جس نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا‘ ایسی منفرد امدادی مہم کی بنیاد بنی، جس کی مثال نہیں ملتی۔

یہ رپورٹ ایتھوپیا میں قحط کے بارے میں تھی۔ اکتوبر 1984 تک شمالی ایتھوپیا کے دور دراز علاقے میں جاری خشک سالی اور لڑائی نے لاکھوں لوگوں کو فاقوں کے دھانے پر پہنچا دیا تھا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے مائیکل برک کو اس دکھائی دیتی ہوئی تباہی پر رپورٹنگ کے لیے بھیجا۔

جب برطانیہ میں لوگ چائے پینے میں مصروف تھے تو اس وقت ہم نے بھوک سے نڈھال لوگوں کی ہولناک تصویریں دیکھیں۔

بچوں کی پسلیاں باہر نظر آ رہی تھیں۔ خواتین خشک چھاتیوں سے بچوں کو دودھ پلانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

لوگ اس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ چہرے پر بیٹھی مکھیوں کو بھی نہیں اڑا پا رہے تھے۔

مردہ یا مرنے کے قریب لوگوں کی دہلا دینے والی ویڈیو دکھاتے ہوئے برک نے دبی ہوئی آواز میں بتایا: ’جیسے ہی صبح ہوئی اور سرد رات کو چیرتا ہوا سورج طلوع ہوا کورم کے باہر میدان میں ایک خوف ناک قحط دکھائی دیا جس کا ذکر انجیل میں ہے اور یہ 20 ویں صدی ہے۔‘

یہ ٹیلی ویژن صحافت کا سنگ میل لمحہ تھا جس کا اثر عوام پر فوراً ہوا۔ سال کے آخر تک ایک چیرٹی سونگ ’کیا انہیں معلوم ہے کہ یہ کرسمس ہے‘، جسے معروف پاپ گلوکاروں (اور فل کولنز) نے ایک ہی دن میں ریکارڈ کروایا، اس کی 30 لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہو گئیں۔

گانے کی فروخت سے ملنے والی ایک ایک پینی ایتھوپیا میں قحط کی مسئلے سے نمٹنے کے لیے امداد کے طور پر دے دی گئی۔

گانے کی فروخت سے مجموعی طور پر 80 لاکھ پاؤنڈ جمع ہوئے اور ایک بڑی امدادی مہم کا راستہ ہموار ہوا۔

لائیو ایڈ کے نام سے امدادی مہم، جو 16 گھنٹے جاری رہنے والی میوزک میراتھن تھی، اور جس کا اہتمام باب گیلڈف نے کیا تھا، اسے دنیا بھر میں ڈیڑھ  ارب لوگوں کو براہ راست دکھایا گیا۔

بی بی سی کی وہ خبر جو دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ گئی اور اس بے مثال امدادی کوشش کا آغاز کیا (جس کے نتیجے میں کامک ریلیف اور ریڈ نوز ڈے جیسی تنظیمیں بھی بنیں)، چار دہائیاں گزرنے کے بعد آج کے ناظرین کو انتہائی مبالغہ آمیز محسوس ہو گی اور ناظرین کو بے حد تکلیف پہنچے گی۔ 

میری مراد صرف برک کا قحط کے بارے میں یہ بیان نہیں کہ ’اس کی شدت تقریباً بائبل کی مانند ہے۔ ناقابل برداشت، اور زمین پر جہنم کے قریب ترین حالات۔‘

بھوک کو اس انداز میں بیان کرنے سے الزام اس کے شکار لوگوں کو دیا جا سکتا ہے کہ جیسے یہ عذاب صرف ان لوگوں پر آتا ہے، جنہوں نے خدا کی ناراضگی کو دعوت دی ہو۔

بات صرف یہ نہیں کہ یہ رپورٹ اب اچھی نہیں لگتی۔ یعنی ناتواں اور بھوکے سیاہ فام کو دکھانا جنہیں سفید فام کی مہربانی سے بچانے کی ضرورت تھی، ’مسئلے‘ کی لغوی تعریف ہو سکتی ہے بلکہ یہ کہ پورا خیراتی نظام اس سوچ سے بھرا ہوا ہے جسے ہم آج کل ’سفید فام نجات دہندہ‘ کہتے ہیں۔

کہاں سے شروع کریں؟ کیوں نہ اس گانے کے بول سے شروع کریں؟ ایتھوپیا دنیا کی قدیم ترین مسیحی برادریوں میں سے ایک کا مسکن ہے۔

68 فیصد آبادی مسیحی ہے۔ یہ تصور کہ انہیں کرسمس کے بارے میں نہیں معلوم تھا، جہالت اور توہین دونوں ہے۔

افریقہ کو ایک وسیع براعظم کے طور پر دیکھنے کی بجائے، یہ سمجھنا کہ یہ ایک ملک ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں ’بہنے والا پانی صرف آنکھوں کا ترش پانی ہے۔‘

’جہاں کچھ بھی نہیں اگتا، نہ بارش ہوتی ہے اور نہ دریا بہتے ہیں‘، اس سوچ کو بنیادی طور پر ایک غلطی یا نفرت پر مبنی جرم کے طور پر شمار کیا جا سکتا ہے۔

یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کتنے مہربان ہیں یا نہیں۔ یہ آسان ہے کہ ہم اس دور میں الجھ جائیں جو 80 کی دہائی کی نوجوان ثقافت کے لیے ایک اہم تھا۔

ڈورین ڈورین اور سپنڈو بیلے ہمارے پسندیدہ میوزک بینڈ تھے۔ ان میوزک بینڈز نے اپنے خیراتی گانا ریکارڈ کروانے کے لیے اپنے اختلافات ایک طرف رکھ دیے۔

لائیو ایڈ کے منتظم گیلڈف نے براہ راست دکھائی جانے والی ٹی وی نشریات پر قسم کھائی۔ یہ سب بہت نیا اور دلچسپ تھا۔ اس دور میں جینے کا مزہ تھا۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں ’کیا انہیں معلوم ہے کہ آج کرسمس ہے‘ کی ویڈیو میں اتنے سارے سٹارز ایک ساتھ سٹوڈیو میں دیکھ کر کتنا خوش ہوا۔

ان سٹارزمیں پال ینگ، بوائے جارج، اور وہ شخص بھی شامل تھا جس کے بارے میں، میں نے طے کر لیا تھا کہ بڑی ہو کر اس کے ساتھ شادی کروں گی۔ ان کا نام جارج مائیکل تھا۔

میرے دوست اور میں گانے کے بول آپس میں بانٹ لیتے اور میں پوری طاقت سے گاتی۔

’اس کرسمس پر افریقہ میں برف نہیں پڑے گی۔‘ تب کسی کو کلے منجارو کی چوٹی پر پڑی برف نہیں دیکھی تھی؟

2014  میں جب گانا نئی شکل میں ریکارڈ کیا گیا تو تو نسل کے اعتبار سے گھانا سے تعلق رکھنے والے ریپ سنگر فیوز او ڈی جی نے ریکارڈنگ میں شامل ہونے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے وضاحت کی کہ گانے کے بول حقیقت میں افریقہ کی عکاسی نہیں کرتے۔ بینڈ ایڈ کی طرف سے پھیلائے گئے تعصبات اب بھی قائم ہیں۔

میں نے ایک بار ایک کامیڈی شو جس میں، میں کام کرتی تھی، ایک میزبان کو دیکھا جو ایک نوجوان سیاہ  فارم جوڑے سے بات چیت کر رہے تھے۔

جوڑے نے میزبان کو بتایا کہ شو سے پہلے وہ رات کا کھانا کھانے گئے پر گئے۔

میزبان نے بغیر کسی وقفے کے پوچھا کہ کیا ان کا کھانا کسی طیارے سے پیکٹ کی شکل میں پھینکا گیا۔ اس بات پر حاضرین نے حیرت کا اظہار کیا اور دبی دبی ہنسی سنائی دی۔

میرا تعلق جزائر غرب الہند کے ساتھ ہے لیکن میرے افریقی پس منظر کے دوست ایسے ہیں جو ان تعصبات سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ جوان ہونے کے بعد وہ کبھی کبھار یہ ظاہر کرتے کہ ان کا تعلق جزائر غرب الہند کے ساتھ ہے۔

جب میں آئرلینڈ میں بی بی سی کے ایک کامیڈی شو میں کام کر رہی تھی تو ایک تماشائی نے یہ بات چھیڑی کہ سکول میں ان کی کلاس میں  شیشے کا ایک بڑا مرتبان ہوتا تھا جس پر ’سیاہ فام بچے‘ کا لیبل لگا ہوا تھا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس طرح ان کے استاد بچوں کو سیاہ فام بچوں کے لیے پیسے جمع کرنے کی ترغیب دیتے تھے۔

’یہ سیاہ فام بچے‘ کون تھے؟ اس بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا، حالانکہ تماشائیوں میں سے سب نے ایسے مرتبان اپنی اپنی کلاسوں میں دیکھ رکھے تھے۔

میں نے پوچھا کہ کیا تماشائی اپنے درمیان مرتبان گھما سکتے ہیں تاکہ میں اپنے سیاہ فام بچوں کے لیے پیسے لے جا سکوں، لیکن اس اچھے خیال کو مسترد کر دیا گیا۔

جیسے کہ مشہور کہاوت ہے کہ ارادے نیک ہوں تو پھر بھی نتائج غلط ہو سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ