چشمے کے اندر نجم آرا کی آنکھیں اس وقت فخر سے چمک اُٹھتی ہیں جب پاکستان کے قومی ترانے کے آخری الفاظ قدیم گراموفون پر بجتے ہیں۔
قومی ترانہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کے دل میں فخر، حب الوطنی اور عزت کا جذبہ جگاتا ہے لیکن نجم آرا کے لیے یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ وہ ان بے شمار آوازوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ترانے کا وہ پہلا ورژن گایا جو دنیا نے سنا۔
86 سالہ نجم سات دہائیاں پہلے پاکستان کا قومی ترانہ ریکارڈ کروانے والے 11 گلوکاروں میں شامل تھیں۔
قومی ترانے کی ابتدائی موسیقی 1949 میں احمد غلام علی چغلا نے تیار کی تھی، جبکہ مشہور پاکستانی شاعر حفیظ جالندھری نے 1952 میں اسے لکھا تھا۔
فارسی زبان میں لکھا گیا قومی ترانہ، جو اردو میں استعمال ہونے والے کئی الفاظ پر مشتمل ہے، پہلی مرتبہ 13 اگست 1954 کو پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان پر حفیظ جالندھری کی اپنی آواز میں پیش کیا گیا تھا۔
اسی سال کے آخر میں اسے 11 گلوکاروں نے ریکارڈ کروایا، جن میں نامور پلے بیک گلوکار احمد رشدی جیسے نامور فنکار بھی شامل تھے۔
16 سالہ نجم آرا بھی انہی گلوکاروں میں ایک تھیں۔
نجم آرا کے بقول: ’میں کوئی مشہور فنکار نہیں تھی۔ اس لیے قومی ترانے کے گلوکاروں میں شامل ہونا میرے لیے فخر کی بات تھی۔ سب لوگ کہہ رہے تھے آپ قومی ترانہ گانے والوں میں شامل ہو گئی ہیں۔‘
کراچی کے علاقے ناظم آباد کے سادہ اپارٹمنٹ میں رہنے والی نجم آرا کا نام اس وقت ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری نے قومی ترانے کے لیے تجویز کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نجم آرا کو تقریباً 70 سال پہلے اس کمرے کا ماحول خوب یاد ہے، جب خوشی سے سرشار موسیقار قومی نغمے کی ریکارڈنگ کے لیے جمع ہوئے۔
نجم آرا نے اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت اچھا ماحول تھا۔ سب خوش تھے کہ ہم قومی ترانے کی ریکارڈنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ ریہرسل اکثر کئی دن تک جاری رہتی تھی اور حفیظ جالندھری خود معاملے کو دیکھتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب ریکارڈنگ کا وقت آیا تو گلوکاروں کو قومی ترانے کی دھن سنوائی گئی۔ مشہور پاکستانی شاعر، موسیقار اور ریڈیو پروڈیوسر مہدی ظہیر نے دھن کو سب کی آوازوں کے مطابق ڈھالنے کی ذمہ داری سنبھالی۔
’الفاظ اور دھن کا امتزاج مہدی ظہیر کی ذہانت تھی جنہوں نے اسے تخلیق کیا۔‘
انہوں نے فخریہ انداز میں کہا کہ ’اس کے بعد طویل عرصے تک، ہر کوئی اس کے بارے میں بات کرتا رہا اور میرے ساتھ بہت عزت سے پیش آتے۔ مختلف تقریبات میں، ہر کوئی مجھے مدعو کرتا تھا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ آئی ہے، وہ ہمارے قومی ترانے کی آرٹسٹ ہے۔‘
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’میرے والد نے واضح کر دیا تھا کہ پیسوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘