انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بدھ کو ریاستی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں آج (بدھ کو) ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے 2019 میں اس مسلم اکثریتی خطے کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے کے بعد یہ اس خطے میں پہلے انتخابات ہیں۔
سری نگر کے ایک ووٹر مہراج الدین ملک نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو بتایا: ’ہمارا پہلا اور سب سے اہم مسئلہ (خطے کی) نیم خود مختاری اور ریاست کی حیثیت کی بحالی ہے۔ میں اسی مقصد کے لیے میں ووٹ دے رہا ہوں کیونکہ یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔‘
52 سالہ ووٹر عبدالرحیم نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’مودی ہم کشمیریوں سے محبت نہیں کرتے، وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں، انڈیا میں مسلمانوں کے حالات دیکھیں، ان کی قیادت میں مساجد کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘
ایک اور ووٹر نے کہا: ’ہم چاہتے تھے کہ یہاں انتخابات ہوں تاکہ ہمیں کچھ سہولت ملے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ایک ایسا نمائندہ ہو جو ہماری شکایات کو آگے لے جائے۔ ہمارے بچے قید ہیں اور ہم تکلیف اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا۔ ہمارے پاس کوئی نمائندہ نہیں جو ان چالوں پر سوال اٹھا سکے۔‘
ملکیت سنگھ نامی ووٹر نے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ الیکشن دس سال بعد ہو رہے ہہں۔ آج نوجوان ووٹ دے رہے ہیں۔ نوجوان نسل محسوس کر رہی ہے کہ وہ انتخاب کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مطالبات کو پورا کیا جا سکے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر سیاسی طور پر غیر مستحکم ہو گیا ہے۔ ہم آج استحکام کے لیے ووٹ دے رہے ہیں۔‘
مودی حکومت نے سابقہ ریاست کو دہلی کے زیر انتظام علاقوں، لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ اس اقدام کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، شہری آزادیوں اور میڈیا پر پر قدغن لگائی گئی۔
تقریباً 26 لاکھ آبادی والے چھ اضلاع میں 239 امیدوار میدان میں ہیں۔ کشمیر کے چیف الیکٹورل آفیسر نے بتایا کہ بدھ کی دوپہر تک ٹرن آؤٹ تقریباً 37 فیصد تھا۔
کئی دہائیوں بعد کشمیر کے علیحدگی پسند ان انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کر رہے ہیں جب کہ بعض انڈیا مخالف رہنما بھی پہلی بار آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔
انڈیا نے ان انتخابات کو علیحدگی پسندی پر فتح قرار دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر، الیکشن لڑنے والی زیادہ تر پارٹیوں نے 2019 کے آئینی اقدام کو تبدیل کرنے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے وعدوں پر مہم چلائی ہے۔
انڈیا کی مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی، جو کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کے ساتھ ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے، بھی خطے کی ریاست کی حیثیت کی بحالی کی حامی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی نے ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام کو روکنے کا عزم کیا ہے۔
انتخابات کے موقع پر سکیورٹی کے بھی سخت اقدامات کیے گئے ہیں جہاں حکام نے ووٹنگ والے اضلاع میں فوجی چوکیاں قائم کیں اور خار دار تاریں بچھا رکھی ہیں جب کہ فورسز بلٹ پروف جیکٹس پہنے اور سالٹ رائفلیں لے کر انتخابی حلقوں میں گشت کر رہی ہیں۔
انتخابات کا تیسرا مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوگا اور ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو ہوگی جس کے نتائج اسی دن متوقع ہیں۔
ووٹنگ 18 ستمبر کو تقریباً 59% ٹرن آؤٹ کے ساتھ شروع ہوئی اور اس دوران کوئی بڑا ناخوش گوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔
پولنگ سٹیشنوں تک غیر ملکی میڈیا کی محدود رسائی ہے جب کہ انڈین حکام نے بغیر کسی وجہ بتائے ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت بین الاقوامی میڈیا کے بیشتر صحافیوں کو انتخابات کی کوریج کی اجازت نہیں دی۔