انڈیا کے زیر انتظام کشمیرمیں انتخابات کے آخری مرحلے میں پولنگ جاری

انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کے دوران خطے کے سات اضلاع میں 415 امیدوار میدان میں ہیں جب کہ اس متنازع خطے کے 39 لاکھ سے زیادہ باشندے حق رائے دہی کے اہل ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ریاستی انتخابات کے آخری مرحلے کے لیے منگل کو پولنگ جاری ہے۔

انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے کے دوران خطے کے سات اضلاع میں 415 امیدوار میدان میں ہیں، جب کہ اس متنازع خطے کے 39 لاکھ سے زیادہ باشندے حق رائے دہی کے اہل ہیں۔

یہ 2019 میں نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے آرٹیل 370 کے خاتمے کے ذریعے مسلم اکثریتی خطے جموں کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کے بعد سے پہلے انتخابات ہیں۔

منگل کو ہزاروں مسلح فورسز کے اہلکار پولنگ والے اضلاع میں اور پانچ ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت پر مامور ہیں، جہاں ووٹ ڈالنے کے لیے تمام سٹیشنوں پر ووٹرز کی لائنیں دیکھی گئیں۔

خطے کے چیف الیکٹورل آفس نے بتایا کہ منگل کی صبح 11 بجے تک تقریباً 28 فیصد ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا۔

پاکستان سے نقل مکانی کر کے جموں پہنچنے والے ہندو پناہ گزین پہلی بار ریاستی انتخابات میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔

جموں کے آر ایس پورہ علاقے کے ایک پولنگ سٹیشن پر وہ پناہ گزین بڑی تعداد میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے قطار میں کھڑے دکھائی دیے۔

ووٹ ڈالنے والے پاکستانی ہندو پناہ گزین وکرم چوہدری نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’یہ ہمارے لیے دیوالی جیسا موقع ہے۔ ہم آج آزاد محسوس کر رہے ہیں۔‘

اسی طرح 76 سالہ ستپال چوہدری نے کہا: ’ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ ہوگا اور اب وہ مقامی معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے۔‘

انڈیا کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں ایک مضبوط سیاسی بنیاد ہے جو بڑی حد تک 2019 کی تبدیلیوں کے حق میں ہے اور یہ ہندو قوم پرست پارٹی گذشتہ انتخابات میں یہاں سے متعدد نشستیں جیت چکی ہے لیکن اس کی پوزیشن مسلم اکثریت والی وادی کشمیر میں کمزور ہے جہاں بی جے پی نے کبھی ایک سیٹ نہیں جیتی۔

مودی کی جماعت نے وادی کی 47 سیٹوں کے لیے صرف 19 امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ وہ جموں کی تمام 43 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مودی حکومت نے سابقہ ریاست کو دہلی کے زیر انتظام علاقوں، لداخ اور جموں کشمیر میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس اقدام کے بعد ہزاروں افراد کو گرفتار کیا گیا، شہری آزادیوں کو سلب کیا گیا اور ذرائع ابلاغ پر قدغنیں لگائی گئیں۔

کئی دہائیوں بعد کشمیر کے علیحدگی پسند ان انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کر رہے جب کہ بعض انڈیا مخالف رہنما بھی پہلی بار آزاد امیدواروں کے طور پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔

وادی کشمیر میں ریاستی انتخابات میں مقابلہ کرنے والے 503 امیدواروں میں سے تقریباً 43 فیصد آزاد ہیں جب کہ جموں میں 359 امیدواروں میں یہ شرح 35 فیصد ہے۔

ریاستی انتخابات 18 ستمبر کو شروع ہوئے تھے۔ گذشتہ بدھ (25 ستمبر) کو دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر ٹرن آؤٹ تقریباً 55 فیصد رہا اور کسی بھی مرحلے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ رپورٹ نہیں ہوا۔

ووٹوں کی گنتی آٹھ اکتوبر کو کی جائے گی اور اسی دن نتائج کا اعلان بھی متوقع ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کو چھوڑ کر، الیکشن لڑنے والی زیادہ تر پارٹیوں نے 2019 کے آئینی اقدام کو تبدیل کرنے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے وعدوں پر مہم چلائی ہے۔

انڈیا کی مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی بھی خطے کی ریاستی حیثیت کی بحالی کی حامی ہے، جو کشمیر کی نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کے ساتھ ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

دوسری جانب بی جے پی نے ان تبدیلیوں کا دفاع کرتے ہوئے ایسے کسی بھی اقدام کو روکنے کا عزم کیا ہے۔

انتخابات کے موقعے پر سکیورٹی کے بھی سخت اقدامات کیے گئے ہیں، جہاں حکام نے ووٹنگ والے اضلاع میں فوجی چوکیاں قائم کیں اور خار دار تاریں بچھا رکھی ہیں جب کہ فورسز بلٹ پروف جیکٹس پہنے اور اسالٹ رائفلیں لے کر انتخابی حلقوں میں گشت کر رہی ہیں۔

پولنگ سٹیشنوں تک غیر ملکی ذرائع ابلاغ کی محدود رسائی ہے جب کہ انڈین حکام نے بغیر کوئی وجہ بتائے ایسوسی ایٹڈ پریس سمیت بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے بیشتر صحافیوں کو انتخابات کی کوریج کی اجازت نہیں دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا